ایران -امریکہ اختلاف فطری ہیں، حکمت عملی نہیں: آیت اللہ خامنہ ای
28
M.U.H
04/11/2025
تہران: رہبر انقلاب اسلامی ایران نے ایرانی قوم کے خلاف امریکہ کے جرائم اور دشمنی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ امریکہ کی استکباری فطرت انقلاب اسلامی کی حریت پسندانہ فطرت سے میل نہیں کھاتی اور امریکہ اور اسلامی جمہوریہ کے درمیان اختلافات کوئی حکمت عملی نہیں یہ اختلافات فطری اور موروثی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے(4 نومبر) " یوم طلبہ اور عالمی سامراج کے خلاف جدوجہد کے قومی دن" کے موقع پر آج صبح ہزاروں طلباء اور حالیہ 12 روزہ مسلط کردہ جنگ کے شہداء کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔انہوں نے 4 نومبر 1979 کو امریکی سفارتخانے پر قبضے کی سالگرہ کو (جو اس وقت انقلاب اسلامی کے خلاف سازش اور منصوبہ بندی کا مرکز بنا ہوا تھا) یوم عزت و فتح اور امریکہ کی سامراجی حکومت کی حقیقت کے آشکار ہونے کا دن قرار دیا۔انہوں نے اس دن کو قومی یادگار کے طور پر درج کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے ایرانی قوم کے خلاف امریکہ دشمنی کی تاریخ پر مختصر روشنی ڈالی جو 19 اگست 1953 کی بغاوت سے شروع ہوئی اور آج تک جاری ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس تاریخی پس منظر کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان اختلافات فطری ہیں اور در اصل امریکہ اور اسلامی جمہوریہ ایران جیسے دو محاذوں درمیان مفادات کا تصادم ہے۔
آپ نے فرمایا کہ یہ اختلافات صرف اس صورت میں ختم ہوں گے جب امریکہ ملعون صیہونی حکومت کی حمایت مکمل طور پر منقطع کر لے، خطے میں اپنے فوجی اڈے ختم اور یہاں کے معاملات میں مداخلت سے دستبردار ہوجائے، اس صورت میں ایران کے ساتھ تعاون کی امریکہ درخواست پر غور کیا جاسکتا ہے لیکن مستقبل قریب اس کا کوئی امکان نہیں۔
اس ملاقات میں آیت اللہ خامنہ ای نے ایرانی قوم کے خلاف امریکہ کی دشمنی کی تاریخ کے ساتھ ساتھ 4 نومبر 1979 کو جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے تاریخ ساز واقعے کی جہتوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ نوجوانوں کے ہاتھوں امریکی سفارت خانے پر قبضے کو دو زاویوں سے پرکھا جا سکتا ہے ایک پہلو "تاریخی" اور دوسرا "شناخت" سے تعلق رکھتا ہے۔
آپ نے تاریخی نقطہ نظر سے 4 نومبر 1979 اور ایرانی طلبہ کی جانب سے امریکی سفارت خانے پر قبضہ کے جرات مندانہ اقدام کو ایرانی قوم کے لیے فخر اور فتح کا دن قرار دیا اور فرمایا کہ سفارت خانے پر قبضے نے امریکی حکومت کے حقیقی چہرے کے ساتھ ساتھ اسلامی انقلاب کے حقیقی تشخص اور جوہر کو بھی واضح کردیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے لفظ " استکبار" کے قرآنی ماخذ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اسے خود کو برتر سمجھنا قرار دیا اور فرمایا کہ بعض اوقات کوئی فرد یا حکومت اپنے آپ کو برتر سمجھتی ہے لیکن دوسروں کے مفادات کو نقصان نہیں پہنچاتی اور اس صورت میں دشمنی کا باعث نہیں بنتی۔ لیکن بعض اوقات کوئی حکومت جیسے اپنے زمانے میں برطانوی حکومت اور آج کی حکومت امریکہ اپنے آپ کو یہ حق دیتی ہے کہ قوموں کے حیاتی ذخائر پر قبضہ کرکے ان کی تقدیر کی مالک بن جائے، یا جن ممالک کی حکومتیں طاقتور اور عوام بیدار نہ ہوں وہاں اپنے فوجی اڈے بنالے یا قوموں کے تیل کے ذخائر اور ديگر قدرتی وسائل کو لوٹنا شروع کردے، ہم اسکتبار کی اس کی شکل کے دشمن ہیں اور اس کے خلاف آواز اٹھاتے رہیں گے۔
رہبر انقلاب نے امریکی سینٹ کی مخاصمانہ قرارداد اور مفرور شاہ کو امریکہ کے بسانے کے فیصلے پر ایرانی عوام میں پیدا ہونے والے غم و غصے کو اسلامی انقلاب کے ساتھ امریکہ کی پہلی محاذ آرائی قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی قوم نے محسوس کیا کہ محمد رضا(شاہ ایران) کو وہاں بسا کر امریکی 28 اگست کی بغاوت کو دہرانا اور اس کی ایران کی واپسی کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ غصے میں سڑکوں پر نکل آئے اور ایرانی اور عوام طلبہ کے یہ مظاہرے امریکی سفارت خانے پر قبضے پر منتج ہوئے۔
رہبر انقلاب نے امریکی سینٹ کی مخاصمانہ قرارداد اور مفرور شاہ کو امریکہ کے بسانے کے فیصلے پر ایرانی عوام میں پیدا ہونے والے غم و غصے کو اسلامی انقلاب کے ساتھ امریکہ کی پہلی محاذ آرائی قرار دیا اور فرمایا کہ ایرانی قوم نے محسوس کیا کہ محمد رضا(شاہ ایران) کو وہاں بسا کر امریکی 28 اگست کی بغاوت کو دہرانا اور اس کی ایران کی واپسی کا راستہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ غصے میں سڑکوں پر نکل آئے اور عوام اور طلبہ کے یہ مظاہرے امریکی سفارت خانے پر قبضے پر منتج ہوئے۔
انہوں نے فرمایا کہ طلبہ ابتدائی طور پر دنیا کے سامنے ایرانی عوام کے غصے کی عکاسی کی غرض سے دو یا تین دن سفارت خانے میں رہنے کا ارادہ رکھتے تھے لیکن طالب علموں کو سفارت خانے میں ایسی دستاویزات ملی ہیں جن سے معلوم ہوا کہ اس معاملے کی گہرائی تصور سے باہر ہے اور یہ کہ امریکی سفارت خانہ انقلاب کے خلاف سازشوں اور بغاوت کی منصوبہ بندی کا مرکز بن ہوا ہے۔
آپ نے ان تجزیوں کو جن میں امریکی سفارت خانے پر قبضے کے واقعہ کو امریکہ اور ایران کے درمیان مسائل کی اصل وجہ قرار دیا جاتا ہے، مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ کے ساتھ ہمارا مسئلہ 4 نومبر 1979 کو نہیں بلکہ 28 اگست 1953 سے شروع ہوتا ہے۔
آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے انقلاب کے بعد کے برسوں کے دوران ایرانی قوم کے خلاف امریکہ کی سلسلہ وار دشمنی کو امام خمینی کے اس حکم کی سچائی قرار دیا کہ" ہر نعرہ امریکہ کے خلاف لگانا چاہیے"۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ امریکہ ایران دشمنی محض زبانی نہیں تھی، اور وہ جو کچھ کرسکتے تھے انہوں نے کیا، پابندیوں، سازشوں اور اسلامی جمہوریہ کے موروثی دشمنوں کی مدد سے لیکر صدام کو ایران پر حملہ کرنے پر اکسانے، اسے ہر طرح کی مدد فراہم کرنے، ایرانی مسافر بردار طیارے کو 300 مسافروں کے ساتھ مار گرانے، پروپیگنڈا جنگ اور ایرانی قوم کے مفادات پر ضرب لگانے کے لیے براہ راست فوجی حملے تک، کیونکہ امریکہ کی سامراجی خو اسلامی انقلاب کی حریت پسندانہ فطرت سے سازگار نہیں، لہذا امریکہ اور اسلامی جمہوریہ کے درمیان اخلافات کوئی حکمت عملی یا کسی خاص معاملے پر نہیں بلکہ یہ اختلافات ذاتی یا فطری ہیں۔
بعض لوگوں کے اس سوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہ "ہم نے امریکہ کے سامنے سر نہیں جھکایا، لیکن کیا ہم اس کے ساتھ کبھی تعلقات نہیں رکھیں گے؟" آپ نے فرمایا کہ اول تو امریکہ کی متکبرانہ فطرت اس کے سوا کچھ بھی قبول نہیں کرتی کہ آپ اس کے سامنے سرجھکا دیں۔اب تک کے تمام امریکی صدور بھی یہی چاہتے تھے لیکن کہتے نہیں تھے، لیکن موجودہ صدر نے اس کا برملا اظہار کرکے در حقیقت امریکہ کی باطنی خصلت کو بے نقاب کر دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران کے ساتھ تعاون کی خواہش کے سلسلے میں امریکیوں کے بعض بیانات کے بارے میں فرمایا کہ ایران کے ساتھ تعاون کی درخواست، ملعون صیہونی حکومت کے ساتھ امریکی تعاون اور مدد کے ساتھ سازگار نہیں۔
انہوں نے عالمی رائے عامہ میں صیہونی حکومت کی رسوائی اور مذمت کے باوجود امریکہ کی جانب سے تسلسل کے ساتھ اسرائیل کی حمایت اور مدد جاری رکھنے اور ایران کے ساتھ تعاون کی درخواستوں کو بے معنی اور ناقابل قبول قرار دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر امریکہ ملعون صیہونی حکومت کی حمایت مکمل طور پر منقطع کر لے، خطے میں اپنے فوجی اڈے ختم اور یہاں کے معاملات میں مداخلت سے دستبردار ہوجائے تو اس صورت میں ایران کے ساتھ تعاون کی امریکہ درخواست پر کسی زمانے میں غور کیا جاسکتا ہے لیکن مستقبل قریب اس کا کوئی امکان نہیں۔