-
غزہ:بنیادی حقوق کی بازیابی کے بغیرپائیدار امن ممکن نہیں
- سیاسی
- گھر
غزہ:بنیادی حقوق کی بازیابی کے بغیرپائیدار امن ممکن نہیں
28
M.U.H
20/10/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
امریکی صدر کی سرپرستی میں ان کے داماد جارڈ کشنزاور سفیر سٹیو وٹکواف کے ذریعہ تیار شدہ ’امن معاہدے ‘ کو 9 اکتوبر 2025 کو فریقین کے اتفاق رائے کے بعد نافذ کردیاگیا۔یہ معاہدہ غزہ میں وقتی جنگ بندی کے لئے کارگر ثابت ہوسکتاہے مگر پائیدار امن کا ضامن نہیں بن سکتا۔کیونکہ معاہدے میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جس کی بناپر یہ کہاجاسکےکہ ٹرمپ غزہ میں جاری بحران کا پائیدار حل چاہتے ہیں ۔ان کا بنیادی مقصد اسرائیلی یرغمالوں کی رہائی اور امریکی ساکھ کی بربادی کو بحال کرنا ہے ۔امریکہ اس معاہدے کے ذریعہ اسرائیل کی عالمی رسوائی کو نیک نامی میں بدلنا چاہتاتھاکیونکہ ٹرمپ کو یہ گمان تھاکہ حماس اس معاہدے پر راضی نہیں ہوگا۔حماس کی عدم رضایت کے بعد امریکہ کو یہ موقع مل جاتاکہ وہ غزہ کی بربادی اور بھکمری کا پورا ٹھیکراحماس کے سرپھوڑ سکے ،مگر حماس کی اعلیٰ قیادت نے دوراندیشی کا ثبوت دیتے ہوئے اس معاہدے کو امریکہ کے گلے کی ہڈی بنادیا۔سوال یہ ہے کہ نتن یاہو نے دو سال کی طویل جنگ سے کیا حاصل کیا؟7 اکتوبر 2023 طوفان الاقصیٰ کے بعد نتن یاہو نے غزہ پر حملے سے پہلے جو بلند بانگ دعوے کئے تھے ان میں وہ ناکام رہا۔ان میں ایک بڑا دعویٰ ’غزہ کا مکمل کنڑول‘ حاصل کرناتھاجس میں کامیابی نہیں ملی۔اسرائیل ’غزہ کا کنٹرول ‘ تو دور وہاں کے بہادر عوام کی استقامت اور صبر کو بھی شکست نہیں دے سکا۔اگر اسرائیل غزہ کے عوام کی استقامت کو توڑنے میں کامیاب ہوجاتاتو جنگ کا پانسہ اس کے پالے میں ہوتااور آج حماس بھی مذاکرات کی میز پر اپنی برتری ظاہر نہیں کررہاہوتا۔’امن معاہدہ ‘ کا مسودہ تمام عرب ملکوں نے قبول کرلیاتھامگر حماس کی رضامندی کے بغیر اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی ،اس لئے حماس نے ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ’امن معاہدہ ‘ پر غور کرنے کے لئے کچھ وقت طلب کیا۔ وقت کا طلب کرنا دراصل اپنی برتری کا اظہار تھااور دنیا کو یہ باور کراناتھاکہ ’امن معاہدہ ‘ حماس کے شرائط کوتسلیم کئے بغیر ممکن نہیں ۔البتہ جنگ بندی کے بعد اب تک انسانی امداد کی ترسیل کے لئے تمام راہداریوں کو نہیں کھولاگیاجس پر ثالثی میں شامل ملکوں کو شرم آنی چاہیے ۔
معاہدے کے نفاذ کے بعد حماس اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ شروع ہوچکاہے۔حماس نے جن زندہ یا مردہ یرغمالوں کو رہاکیاان کے جسم پر کسی قسم کے تشدد کے نشانات نہیں ملے اور نہ اسرائیل کی طرف سے ایساکوئی دعویٰ کیاگیا۔لیکن اسرائیل نے جن شہداء کی لاشیں واپس کی ہیں ان کے جسموں پر تشدد اور سروں پر گولیوں کے نشانات ملے ہیں ۔اس پر تعجب بھی نہیں ہوناچاہیے کیونکہ اسرائیلی جیلوں سے رہاہونے والے قیدیوں نے صہیونی فوجیوں کی بربریت کی جو داستانیں بیان کی ہیں وہ انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہیں ۔حتیٰ کہ جیلوں میں خواتین کو جنسی زیادتی کا شکار بنایاگیاجس کے شواہد وقتافوقتاً سامنے آتے رہے ہیں ۔سوال یہ اٹھتاہے کہ کیاکبھی اسرائیلی بربریت کے خلاف کوئی موثر قانونی چارہ جوئی ہوسکے گی یا نہیں؟ کیا امریکہ کبھی نتن یاہو کو جنگی مجرم کی حیثیت سے عالمی عدالت میں پیش کرنے کی جرأت کرے گا؟ ظاہر ہے یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ غزہ میں جو کچھ ہواہے اس کو امریکی تائید حاصل ہے لہذا جنگ بندی کا یہ معاہدہ بہت خوش آئند نہیں ہے ۔جب تک فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق نہیں ملیں گے ،جنگ بندی کا کوئی بھی مسودہ کارگر ثابت نہیں ہوگا۔فلسطین کو جب تک آزاد ریاست کے طورپرتسلیم نہیں کیاجائے گااور صہیونیوں کے جنگی جرائم کا احتساب نہیں ہوگا،امن کا قیام ممکن نہیں ہوسکتا۔فلسطینیوں نے اپنے پیاروں کی قربانیاں جنگ بندی کے لئے نہیں دیں بلکہ اپنی آزادی اور خودمختاری کے لئے دی ہیں ۔اس لئے عالمی طاقتوں ،خاص طورپر عربوں کو ’جنگ بندی ‘ اور ’دوریاستی حل ‘ کے منصوبے پر خوشی کا اظہارکرکے فلسطینیوں کی قربانیوں کا تمسخر نہیں کرناچاہیے۔
امن معاہدہ کا نفاذ اسرائیل کے لئے بڑاچیلینج ہے کیونکہ غزہ سے فوجوں کا انخلاعالمی سطح پر اس کی تذلیل کا سبب بنے گا،لیکن معاہدے کے ابتدائی دور میں صہیونی فوجیںغزہ کے بعض علاقوں سے انخلاپر مجبور ہورہی ہیں ۔دراصل یہ جنگ اسرائیل کی بقاکے لئے لڑی جارہی ہے ۔عربوں سے اپنا وجود تسلیم کروانے کے لئے اسرائیل نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا،حتیٰ کہ عربوں نے اس کی قانونی حیثیت کو تسلیم بھی کرلیا تھااور اس راہ میں مزید پیش رفت جاری تھی مگر ’امن معاہدے ‘کے کامیاب نفاذ کے بعد خودمختاری کی اس جدوجہد پر بھی ضرب پڑے گی ۔اسرائیل مسلسل عربوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار کرنے کے لئے کوشاں ہے ،جب کہ تمام عرب ملک اس کے حلیف ہیں مگر اعلانیہ حمایت سے گریز کرتے ہیں ۔اسرائیل چاہتاہے کہ عرب اس کی اعلانیہ حمایت کریں تاکہ مسلمانوں کے دلوں میں جو اس کےتئیں نفرت پنپ رہی ہے اس پر قابوپایاجاسکے ۔البتہ یہ اس کی غلط فہمی ہے کیونکہ اگر تمام عرب ملک اعلانیہ اسرائیل کی گود میں جا بیٹھیں تب بھی مسلمانوں کے دل اسکی طرف مائل نہیں ہوسکتے۔خاص طورپر حالیہ غزہ جنگ کے بعد جس طرح صہیونی فوجوں نے فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کے ہولناک طریقے اپنائے ہیں ،اس نے نا صرف مسلمانوں بلکہ ہر زندہ ضمیر انسان کو صہیونیت سے متنفر کردیا ہے ۔دنیا بھر میں غزہ کی حمایت میں مظاہرے ہوئے جس میں غیر مسلموں کی تعداد زیادہ تھی ،خاص طورپر ان ملکوں میں بھی بغاوت کے پرچم بلند ہوئے جو امریکہ اور اسرائیل کے حلیف ہیں ۔وہاں کے عوام نے اپنی حکومتوں کو پیغام دیاکہ حکومتوں کی مکروہ پالیسیاں عوام کی فکر اور جذبات کا اظہار نہیں ہوتیں ۔حریت اور انسانیت دوستی کا یہ جذبہ مغرب میں زیادہ نظر آیامگر عرب ملکوں کے عوام اب بھی بے حسی کے لبادے میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں ۔عرب عوام کی اسی بے حسی اور غفلت نے ان پر استعمار کے غلاموں کو آقا کی طرح مسلط کردیاہے ۔جب تک عرب ملکوں میں عوامی انقلاب نہیں آئے گاعرب حکومتوںکی صورت حال میں زیادہ تبدیلی رونما نہیں ہوگی۔فلسطین کے استقلال اور مشرق وسطیٰ میں نئی تبدیلی کے لئے عربوں میں انقلابی تحریکوں کا وجود میں آنا بے حد ضروری ہے۔
طوفان الاقصیٰ 2023کے بعد جب غزہ میں صہیونی فوجیں داخل ہوئیں تو جنگ کا نیا مرحلہ شروع ہواجس میں حزب اللہ لبنان اور یمن نے کلیدی کردار اداکیا۔اس دوران مقاومتی محاذ نے کئی اہم رہنمائوں کی قربانیاں پیش کیں جن میں حزب اللہ کے جنرل سکریٹری سید حسن نصراللہ ،ان کے بعد ان کے جانشین ہاشم صفی الدین اور اعلیٰ قیادت کے افراد جو اسرائیل کے فضائی حملے میں باہم درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ۔ان کے بعد غزہ میں یحیٰ سنوار اور ابوعبیدہ جو مزاحمتی محور کا قطب تصور کئے جارہےتھے، شہید ہوئے ۔خاص طورپر یحیٰ سنوار کی شہادت نے غزہ میں موجود حماس کے لیڈروں ،نوجوان نسل اورمظلوم عوام کو ظالموں سے ٹکرانے کا نیا جذبہ عطاکیا۔غزہ کے نوجوان صہیونی فوجوں کے مظالم سے خوف زدہ نہیں ہوئے اور نہ حماس سے ان کا لگائو کم ہوا۔یہی صور تحال لبنان میں نظر آئی ۔سید حسن نصراللہ اور ان کے رفقاء کی شہادت کے بعد لبنانی نوجوانوں میں استقامت کا نیا جوش پیداہوا۔موجودہ صورت حال یہ ہے کہ حماس اور حزب اللہ میں نئی بھرتیاں جاری ہیں اور مقاومت ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے ۔ایران کے ساتھ بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل کی شرمناک شکست نے مزاحمتی محاذ کو نئی زندگی بخشی ہے کیونکہ اس سے پہلے اسرائیل کو ناقابل تسخیر تصور کیاجاتاتھااور اس کے دفاعی نظام کا ڈنکا پوری دنیا میں بج رہاتھا،جب کہ ایران نے ہمیشہ اسرائیل کو مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور کہا،لیکن دنیا اس کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھی ۔
طوفان الاقصیٰ کے بعدفلسطین کو جس طرح عالمی حمایت حاصل ہوئی ،ایسا پہلے کبھی نہیں دیکھاگیا۔غزہ جنگ نے مسئلۂ فلسطین کو عالمی سطح پر زندہ کیاہے بشرطیکہ فلسطین کی موجودہ قیادت اخلاص اور شجاعت کا مظاہرہ کرے کیونکہ غزہ جنگ کے دوران فلسطین کے حکمرانوں نے حماس کی حمایت نہ کرکے اپنی صفوں میں انتشار کا واضح عندیہ دیا جس سے فلسطین مخالف طاقتوں کو تقویت حاصل ہوئی ہے ۔دنیا مسئلۂ فلسطین کے حل کی طرف متوجہ ہے اس لئے فلسطینی گروہوں کو اتحاد اور بیداری کا ثبوت دیناہوگا۔فلسطینی عوام کو بھی چاہیے کہ اپنے درمیان موجود استعمار ی آلۂ کاروں کو پہچان کر مخلص اور شجاع قیادت کا انتخاب کریں ۔جب تک ان کے درمیان استعمار نواز سیاست مدار موجود ہیں مسئلۂ فلسطین کا حل ممکن نہیں۔