-
ہندوپاک کشیدگی ،عالمی استعمار اور میڈیا
- سیاسی
- گھر
ہندوپاک کشیدگی ،عالمی استعمار اور میڈیا
3
M.U.H
13/05/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوگیاہے ۔حیرت یہ ہے کہ ہتھیاروں کے سوداگر امریکہ نے جنگ بندی میں ثالثی کا کردارنبھایا۔آپریشن ’سندور‘ کے بعد پاکستان نے آپریشن ’بنیان مرصوص‘ شروع کیاتھا،جس کے بعدصورت حال مزید خراب ہونے کا خدشہ تھامگر اچانک جنگ بندی کی خبروں نے امن پسند وں کو راحت پہونچائی ۔یہ الگ بات کہ جنگ بندی پر اتفاق رائے کا اعلان وزیر اعظم نریندر مودی کے بجائے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا۔ٹرمپ کا یہ اعلان تعجب خیز نہیں تھاکیونکہ جنگ کا صور بھی امریکی رضامندی کے بغیر نہیں پھونکاجاتا۔تعجب یہ ہے کہ وہ امریکہ جو اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی سے باز نہیں رکھ پایاوہ ہند وپاک کے درمیان امن کے سفیر کی حیثیت سے کام کررہاتھا۔دنیا کو ہر لمحہ جنگ کی بھٹی میں جھونکنے کی کوشش کرنے والی طاقت امن کی بات کرنے لگے تو تجسس مزید بڑھ جاتاہے ۔اس کے پیچھے بھی یقیناًکوئی امریکی مفاد رہاہوگا۔ایک ظاہری مفاد توچین پر برتری کااظہاربھی ہے کیونکہ اس جنگ میں چین پاکستان کی پشت پر کھڑاہواتھا۔اس بناپر ٹرمپ نے جنگ بندی کا اعلان کرکے چین کو کمزور دکھلانے کی کوشش کی ۔ٹرمپ کے اعلان کےفوراًبعد چینی وزیر خارجہ نے واضح الفاظ میں کہاکہ چین پاکستان کے ساتھ ہے ۔گویاکہ ہندوپاک کشیدگی کے بہانے امریکہ اور چین اپنی بھڑاس نکالناچاہتے ہیں۔ان تمام باتوں کے باوجود جنگ بندی کا خیرمقدم کرناچاہیے کیونکہ جنگ طرفین کے لئے گھاٹے کا سوداہوتی ہے ۔ہاں وزیر اعظم مودی سے سوال ضرورہوناچاہیے کہ آخر ان کا ’مٹی میں ملادیں گے ‘ والافیصلہ ابھی باقی ہے یا وہ بھی محض انتخابی جملہ تھا۔
جنگ شروع کرنااور اس کو ختم کرنادو الگ باتیں ہیں ۔دنیا کی بڑی طاقتوں نے چھوٹے ملکوں ،معمولی طاقتوں یا چھوٹی چھوٹی مزاحمتی تنظیموں کے خلاف جنگیں شروع توکردیں مگر انہیں منطقی انجام تک نہیں پہونچایاجاسکا۔کیا امریکہ نے افغانستان میں کامیابی حاصل کرلی تھی ؟اگر ایساتھاتوپھر امریکہ کو افغانستان چھوڑ کرکیوں جاناپڑا۔کامیابی تو امریکی فوجوں کو عراق میں بھی نہیں ملی ،یہ الگ بات کہ صدام حسین کو تختۂ دار پر لٹکادیاگیا۔یہی صورت حال یوکرین اور روس جنگ میں دیکھی جاسکتی ہے ۔عالمی طاقتوں کی مداخلت کے باوجود اب تک یہ جنگ انجام کو نہیں پہونچ سکی ۔غزہ تو کسی ملک کا نام نہیں ،اس کے باوجود ایک چھوٹے سے شہر کی چھوٹی سی تنظیم کو ابھی تک شکست نہیں دی جاسکی۔حزب اللہ بھی لبنان کی ایک تنظیم کانام ہے جس کا اقتدار میں بھی دخل ہے مگریہ تنظیم پورے ملک کی ترجمانی نہیں کرتی ۔اس کے باوجوداسرائیل کو حزب اللہ کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور ہوناپڑا ۔حوثیوں کی تعداد امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کی فوجوں کے مقابلے میں ہیچ ہے مگر بحر احمر میں جس طرح حوثیوں نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا،اس سے امریکہ بھی پار نہیں پاسکا۔نتیجتاً اب امریکی صدر حوثیوں کے ساتھ بھی مذاکرات کے خواہاں ہیں۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جنگ شروع کرناآسان ہے مگر اس کوانجام تک پہونچاناآسان نہیں ۔خواہ یہ جنگ کسی ملک،معمولی طاقت ،یا چھوٹی موٹی تنظیموں کے ساتھ ہی کیوں نہ ہو۔توپھر کس بنیاد پر میڈیا ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کی خبروں کو بڑھاچڑھاکر دکھلارہاہے؟ ذرائع کےحوالے سے بے بنیاد خبریں نشر کرناکوئی نئی بات نہیں ،توپھرہندوستانی حکومت کو ’ذرائع کی بنیاد پر خبریں نشر کرنے کے خلاف‘ ہدایت نامہ کیوں جاری کرناپڑا؟وزارت اطلاعات ونشریات نے واضح الفاظ میں کہاہے کہ سکیورٹی آپریشنز سے متعلق معلومات صرف حکومت کے مقررکردہ افسران کے ذریعہ دی جائے گی،اُس وقت تک میڈیا کو ان سرگرمیوں سے فاصلہ برقراررکھناہوگا۔یہ گائیڈ لائن صرف نیوز چینلوں کے لئے نہیں ہے بلکہ اس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز ،اخبارات اور نیوز پورٹل بھی شامل ہیں۔اس سے ظاہر ہوتاہے کہ بے لگام میڈیا سے حکومت بھی پریشان ہے ،مگر یہ پریشانی اس کی اپنی ہی کھڑی کی ہوئی ہے ،جس پر بہت پہلے قابوپایاجاسکتاتھامگرافسوس نہیں پایاگیا۔اگر میڈیا جھوٹ اور بےبنیاد خبروں کوپھیلائے گاتوپھر ایک عام شہری کے پاس صحیح معلومات تک رسائی کا دوسراذریعہ کیارہ جاتاہے؟اس لئے میڈیا کو اپنی ذمہ داری کو سمجھناچاہیے۔
پہلگام حملے کے بعد ہمیں یقین تھاکہ ہندوستانی فوج اپنے شہیدوں کا انتقام ضرور لے گی۔فوج نے’آپریشن سندور‘ کے ذریعہ اپنا فریضہ بخوبی انجام دیااور آگے بھی وہ اپنی حکمت عملی کے مطابق اقدام کرتی رہے گی ۔لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھناچاہیے کہ جنگ ایک محاذ پر نہیں لڑی جاتی ۔جنگ بیک وقت مختلف محاذوں پر لڑی جاتی ہے ۔سرحدپر لڑی جانےوالی جنگ یقیناًبہت مشکل ہوتی ہے مگر ملک کے اندر بھیکئی محاذوں پر جنگ لڑی جاتی ہے ۔اس میں سب سے اہم محاذ اقتصاد اور ضروری وسائل کی فراہمی سے جڑاہواہے ۔جنگ دوطرفہ اقتصاد پر حملہ ورہوتی ہے جس سے براہ راست عام آدمی متاثر ہوتاہے ۔انسانی نظام حیات تعطل کا شکار ہونے لگتاہے اوربنیادی انفرااسٹرکچر کے تباہ ہونے سے زندہ رہنے کی امیدیں بھی دم توڑنے لگتی ہیں ۔جنگ افلاس کو جنم دیتی ہے جس کا مشاہدہ حال ہی میں ہم نے غزہ میں کیا اور اب بھی کررہے ہیں ۔جنگ سے صرف سیاست مداروں اور سرمایہ داروں کو فائدہ پہونچتاہے ۔جنگ انسانی بنیادوں پر نہیں لڑی جاتی بلکہ اپنے اپنے مفاد کے پیش نظر لڑی جاتی ہے ۔یہ مفاد کبھی انسانی بنیادوں پر طے نہیں ہوتےبلکہ سیاسی بنیادوں پرطے ہوتے ہیں ۔جنگ اسلحہ ساز ملکوں اور کمپنیوں کے لئے پیغام نوید لے کر آتی ہے ۔ہمیشہ انہی طاقتوں نے جنگ کے شعلوں کو ہوادی ہے جواسلحہ بناتے اور بیچتے ہیں ۔اس لئے ہمیں ہوشیاررہناہوگاکہ اس جنگ سے ایسے لوگوں کو ہرگز فائدہ نہیں پہونچے جو ہمیشہ نئی جنگ چھیڑنے کی فکر میں رہتے ہیں ۔
ہمیں یاد رکھناچاہیے کہ جنگ ہمیشہ اپنے بوتے پر لڑی جاتی ہے ۔دنیا کی دوسری طاقتیں صرف اپنے مفاد کے پیچھے ہوتی ہیں ۔عالمی طاقتیں اپنے ہتھیاروں کو فروخت کرناچاہتی ہیں اور دنیاپر جنگ تھوپ کر اپنی چودھراہٹ برقراررکھناان کا اولین ہدف ہوتاہے ۔عالمی طاقتوں نے روس کے خلاف یوکرین کی بھرپور مدد کی ۔مگر جب امریکہ میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد یوکرینی صدر زیلنسکی امریکی دورے پر پہونچے تو ڈونالڈ ٹرمپ نے ان کے ساتھ کتنانارواسلوک کیا،اس کو پوری دنیا نے دیکھاہے۔اس لئے کسی ملک کے بھروسے پر لڑی جانےوالی جنگوں کے نتائج خوش آئند نہیں ہوتے ۔جب تک ان کے مفادات پر ضرب نہیں لگتی وہ ساتھ کھڑے ہوتے ہیں اور جب ان کے مفاد پر آنچ آنے لگتی ہے تو وہ دامن جھاڑ کرکنارے ہوجاتے ہیں ۔ہندوپاک کے سیاست مداروں کو بھی اس حقیقت کو باورکرناہوگاکہ تیسرافریق کبھی ان کے مسائل کوحل نہیں کرواسکتا۔علاقائی مسائل کےتصفیہ کے لئے انہیں خود مذاکرات کی میز پرآناہوگا۔مذاکرات کی دعوت بھی انہیں ایک دوسرے کو خود دینی چاہیے اس کے لئے امریکی سہاراامن معاہدے کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔
ہندوستان میں اسرائیل کا بڑھتاہوااثرونفوذ بھی ملک کی سالمیت کے لئے خطرناک ہے ۔جو ملک اپنی حفاظت میں ناکام رہاوہ ہماری حفاظت کو کیسے یقینی بناسکتاہے ؟ اس کےباوجود ہم نے دیکھاکہ میڈیا نے ’آپریشن سندور‘ کے بعدکس طرح زبردستی اس جنگ میں حماس کو کھینچنے کی کوشش کی تاکہ ہندوستانی عوام کو یہ باورکرایاجاسکے کہ حماس اور پاکستان کی دوستی کتنی گہری ہے ۔جب کہ غزہ جنگ میں کسی مسلم ملک نے حصہ نہیں لیااور نہ کسی نے حماس کو مدد پہونچائی ۔اس سے اندازہ ہوتاہے کہ ہماراقومی میڈیا کس قدر استعماری نیوزایجنسیوں کی زد میں ہے اور ان کی پروپیگنڈہ اور فرضی خبروں کوبغیر تصدیق کے نشر کرتاہے ۔اسرائیل نوازی میں ہندوپاک کشیدگی کو دوسرارخ دیناصحیح نہیں ہے ۔یہ دونوں ملک روایتی حریف ہیں اور اب ان کے درمیان نفرت کا سب سے موثر عنصر مذہب ہے۔اس لئے دونوں ملکوں کے درمیان موجود کشیدگی کو اسی تناظر میں دیکھناچاہیے ۔اگر امریکہ اور اسرائیل دونوں ملکوں کے معاملات میں مداخلت کریں گے تو اس کے خوش آئند نتائج ہرگز برآمد نہیں ہوسکتے ۔دونوں ملکوں کو اپنے مسائل سلجھانے کے لئے خود آگے آناہوگاکیونکہ جنگ سے صرف انسانیت شرمسار ہوتی ہے ۔