-
آخر استعماری طاقتوں نے شکست تسلیم کرلی
- سیاسی
- گھر
آخر استعماری طاقتوں نے شکست تسلیم کرلی
416
M.U.H
08/07/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
مذاکرات کا دروازہ تو ہمیشہ کھلارہناچاہیے مگر اب ایسانہیں لگتاکہ ایران کو امریکہ سے مذاکرات کی ضرورت ہے ۔موجودہ صورت حال میں امریکہ ایران کے ساتھ مذاکرات پر مجبور ہوگااور نتائج بھی ایران کے حق میں زیادہ بہتر آئیں گے ۔ایران نے جس انداز میں اسرائیل کو شکست دی ہے اور اس کو گھنٹوں پر لاکر جنگ بندی کی دہائی دینے پر مجبورکیااس کا اثر وہائٹ ہائوس تک محسوس کیاگیا۔امریکہ جس نے جنگ کے پہلے دن ہی کہہ دیاتھاکہ یا مکمل تباہی یا غیر مشروط تسلیم،وہ بھی جنگ بندی کے لئے فریاد کررہاتھا۔جنگ بندی ابھی ہوئی بھی نہیں تھی کہ ٹرمپ کی طرف سے ایران کا شکریہ اداکیاجانے لگا۔کہاں یہ زعم کہ ہم ایران میں نظام بدل دیں گے اور کہاں یہ انفعالی کیفیت کہ ایران کا شکریہ اداکیاجارہاتھا۔جنگ بندی کے فوراًبعد ٹرمپ کا ایک اور بیان سامنے آیاکہ ایران میں نظام کی تبدیلی عدم استحکام پیداکرے گی ۔شاید اسی کیفیت کے لئے ’انگور کھٹّے ہیں‘ کا محاوہ ایجاد ہواتھا۔امریکہ نہ تو ایران کو غیر مشروط مذاکرات پر مجبور کرسکااور نہ سرینڈر پر ۔اسرائیل جس طرح جنگ بندی کی دہائی دے رہاتھااس سے اندازہ ہوتاہے کہ اس کے سارے کَس بل نکل گئے ۔ایران کی جوہری تنصیبات پر ناکام امریکی حملے کے بعد صورت حال مزید تشویش ناک ہوگئی تھی کیونکہ اسرائیل جنگ میں امریکہ کی براہ راست مداخلت کاخواہاں تھا۔البتہ اس مداخلت کے نقصانات کا اندازہ وہائٹ ہائوس کو بخوبی تھا،اس لئے اپنے اڈوں پر ایران کے جوابی حملے کے بعد وہائٹ ہائوس نے کہاکہ ہم ایران کے حملوں کا جواب نہیں دیں گے ۔ٹرمپ نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ انہیں ایران نے حملے کی پیشگی اطلاع دیدی تھی ،اس لئے وہ ایران کا شکریہ اداکرتے ہیں ۔گویاکہ ٹرمپ اپنے اوپر ہونے والے حملے کی پیشگی اطلاع پر بھی ایران کااحسان مان رہے تھے ۔یہ ہوتی ہے کراری شکست کے بعد ذہنی بوکھلاہٹ ۔
اسرائیل اور امریکہ نے اس جنگ کو ایران میں قیادت کی تبدیلی کے نام پر شروع کیاتھا۔کیونکہ امریکہ کے ساتھ جوہری معاملات پر جومذاکرات جاری تھےاس میں امریکی شرائط کونظرانداز کیاجارہاتھا۔ایران اپنے شرائط کی برتری کےساتھ جوہری معاہدہ کرناچاہتاتھا۔یہ شرائط ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی مرضی کے مطابق طے پائے تھے ،اس بناپر امریکہ نے یہ سوچاکہ اگر ایران کے شرائط کو تسلیم کرکے جوہری معاہدہ کیاگیاتو دنیا میں بڑی بدنامی ہوگی ،اس لئے کیوں نہ ایران میں نظام ہی بد ل دیاجائے ۔اس لئے جوہری توانائی میں افزودگی کے بہانے امریکہ نے اسرائیل کو ایران پر حملے کی غیر قانونی اجازت دیدی۔یقیناًاسرائیل کے پہلے حملے میں ایران کا بڑانقصان ہوا،مگر ایرانی قیادت نے استعمار کے اس منصوبے پر بھی پانی پھیردیا۔آیت اللہ خامنہ ای نے کچھ ہی گھنٹوں میں فوجی عہدوں پر نئےافراد کومنسوب کرکے اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کا اعلان کردیا۔ان کا واضح فرمان تھا’یہ جنگ اسرائیل نے شروع کی ہے مگر ختم ہم کریں گے‘۔ہوابھی ایساہی ۔جنگ بندی سے پہلےایران نے آخری حملہ کرکے جنگ کے اختتام کا صور پھونکا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ۔اب سافٹ وار کا دور نئے سرے سے شروع ہوگاجو ایک مدت سے دونوں ملکوں کے درمیان جاری ہے ۔
ایرانی حملے کے بعد صہیونیوں کو شدت سے ایران کی عسکری صلاحیتوں کا احساس ہوا۔اب تک اسرائیل پر کبھی ایساحملہ نہیں ہواتھا۔اس سے پہلے علاقے میں عدم استحکام پیداکرکے اسرائیل نے اپنی بالادستی ظاہر کردی تھی ۔مزاحمتی تنظیمیں اپنی اعلیٰ قیادت کی شہادت کی بناپر بظاہر بہت کمزور ہوچکی تھیں ۔تنہا یمن اسرائیلی جارحیت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑاتھا،مگر اس پر بھی مسلسل فضائی حملے کئے جارہے تھے ۔شام میں قیادت کی تبدیلی نے مزاحمت کو مزید ٹھیس پہونچائی تھی ۔گویاکہ علاقے میں اسرائیل کی ٹیکنالوجی،حربی لیاقت اور عسکری صلاحیت اور خفیہ ایجنسی موساد کا دبدبہ بڑھنے لگاتھا۔مگر ایران کے پے درپے خطرناک حملوں نے اس کی تمام تر عسکری اور حربی صلاحیتوں پر ضرب لگائی ۔حتیٰ کہ وہ جدید دفاعی نظام جو امریکہ نے اسرائیل کو دیاتھا،وہ بھی ایرانی میزائیلوں کو روکنے میں ناکام رہا۔ایران نے ہر اس ہدف پر میزائیلیں داغیں جو اس کے منصوبے میں شامل تھا۔ان حملوں کے بعد جب اسرائیل کی بربادی کی تصویریں منظر عام پر آئیں تو دنیا انگشت بدنداں رہ گئی ۔وہ اسرائیل جو خود ناقابل تسخیر مانتاتھا،اس کے عوام ایران سے معافی مانگتے نظر آئے ۔ایران میں ایک منظر بھی ایسانظر نہیں آیاکہ وہاں کے عوام نے اپنی فوج یا اعلیٰ قیادت پر کوئی سوال اٹھایاہو۔وہ افراد کو انقلاب اسلامی کے حامی نہیں تھے وہ بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف اپنی حکومت کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوگئے ۔اس اتحاد نے استعماری طاقتوں کو متزلزل کردیااور دشمن ایران کے داخلی معاملات کو بھی متاثر کرنے میں ناکام رہا۔
ایران اور اسرائیل جنگ نے اس پروپیگنڈے کو بھی باطل کردیاجو ایران مخالف طاقتوں کی طرف سے کیاجاتارہاہے ۔دشمن کے آلۂ کار ہمیشہ یہ کہتے تھے کہ ایران اور صہیونی آپس میں ملے ہوئے ہیں ۔خاص طورپر غزہ جنگ کےتناظر میں ایران پر بڑی تنقید کی گئی کہ اس نے اپنے مفاد کے لئے حماس کی اعلیٰ قیادت کو شہیدکروادیااور غزہ کو برباد ہونے کے لئے تنہا چھوڑدیا۔جب کہ غزہ جنگ میں ایران کےکردار اور حماس کی حمایت کے بارے میں دنیا بے خبر نہیں ۔ایران پر اسرائیلی حملے کو غزہ جنگ سے الگ کرکے نہیں دیکھاجاسکتا۔علاقے میں موجود مزاحمتی محاذ کی کھلی حمایت اور مسئلۂ فلسطین پر ایران کے دوٹوک موقف نے دونوں طاقتوں کے درمیان کشیدگی کو جنم دیاتھا۔لبنان میں حزب اللہ ،یمن میں انصاراللہ ،عراق میں حشدالشعبی ،شام میں بشارالاسد کی حکومت ،اور غزہ میں حماس جیسی تنظیمیں اسرائیل کے خلاف بغیر کسی تعاون کے نہیں کھڑی تھیں ۔بشارالاسد حکومت کا خاتمہ بھی ممکن نہیں تھااگر وہ ایران کے ساتھ مخلصانہ تعاون برقراررکھتے ۔مگر عربوں کے ساتھ بڑھتی ہوئی دوستی اور عرب لیگ میں شام کی شمولیت نے انہیں دام فریب میں گرفتار کردیا۔نتیجہ یہ ہواکہ امریکہ اور اسرائیل کے حامی ٹولے نے شام کے اقتدارپر قبضہ کرکے بشارالاسد کو روس فرار ہونے پر مجبورکردیا۔شام کو قبضے میں لینااسرائیل کی بڑی کامیابی تھی ۔کیونکہ لبنان اور غزہ کو بھیجی جانے والی رسد شام سے ہوکر گذرتی تھی ۔شام پر قبضے کے بعد حالات دگرگوں ہوگئے اور غزہ میں بھکمری کا دائرہ بڑھنے لگا۔لبنان میں حزب اللہ نے بھی جنگ کے میدان سے قدم پیچھے کھینچ لئے اور جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کردی۔
بہرکیف!ایران نے بارہ روزہ جنگ میں اسرائیل اور اس کی حلیف طاقتوں کو کراری شکست دی ہے ۔اگر اسرائیل کو اس قدر نقصان نہ پہونچ رہاہوتاتو وہ کبھی جنگ بندی کی دہائی نہیں دیتا۔امریکہ کو بھی بہت جلد یہ احساس ہوگیاکہ اس جنگ میں کودنا اس کی بڑی غلطی ہے اس لئے اس نے بھی مختلف حیلوں اور بہانوں سے اپنے قدم واپس کھینچ لئے ۔اچانک ڈونالڈ ٹرمپ کا لہجہ بدل گیااور وہ ایران کو جنگ بندی پر مبارک باد دیتے نظر آئے ۔لیکن اس جنگ کے دوران ہم نے مسلم حکمرانوں کی بے حسی ،استعمار نوازی اور ذہنی غلامی دیکھ لی ۔یہ زرخرید حکومتیں جب غزہ کی تباہی پر خاموش رہیں تو پھر ایران پر حملے کے خلاف کیسے کھڑی ہوسکتی تھیں ۔یہ تمام حکومتیں اسرائیل اور امریکہ کی قائم کردہ ہیں ،جن کی اجازت کے بغیر وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے ۔ان تمام ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں ،اس لئے ان سے کسی مزاحمت کی توقع کرنا خودفریبی کے سوااور کچھ نہیں!دوسرے یہ کہ چین اور روس جیسی طاقتوں پر بھی انحصار نہیں کیاجاسکتا۔روس بیک وقت ایک ہی محاذ پر لڑ سکتاہے ۔شام میں اقتدار کی تبدیلی کے وقت بھی روس نے کوئی کلیدی کردار ادانہیں کیا ۔یوکرین جنگ نے اس کے حوصلے مزید پست کردئیے اور روس کسی بھی نئے محاذ پر جنگ لڑنے سے کترارہاہے ۔چین اپنے تجارتی فائدے کے پیش نظرمذمتی بیانات کی حد سے آگے نہیں بڑھ سکا۔اگریہ جنگ امریکہ کی طرف منتقل ہوتی تو دنیا یقیناًدودھڑوں میں تقسیم ہوتی ،مگر اس کے نتائج بھیانک ہوتے ۔موجودہ صورتحال میں ایران کو اپنے داخلی مسائل پر قابوپانے کی ضرورت ہے ۔خاص طورپر نفاق اور خیانت جو اس وقت ایران کے لئے سب سے بڑاچیلینج ہے ۔ساتھ ہی سفارت کاری کی نئی راہیں استوارکرناہوں گی تاکہ خطے میں استعمار کو کمزور کیاجاسکے۔