پریاگ راج: الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک اہم تبصرہ کرتے ہوئے اُس طالب علم کو ضمانت دے دی ہے جس نے سوشل میڈیا پر پاکستان کی حمایت میں پوسٹ کی تھی۔ عدالت نے کہا کہ اگر کوئی شخص بھارت یا کسی مخصوص واقعہ کا ذکر کیے بغیر محض پاکستان کی حمایت کرتا ہے، تو اسے بھارتی نیائے سنہتا (BNS) کی دفعہ 152 کے تحت ابتدائی طور پر جرم نہیں مانا جا سکتا۔
یہ فیصلہ جسٹس ارون کمار سنگھ دیشوال کی بنچ نے سنایا، جنہوں نے 18 سالہ ریاض کو ضمانت دی، جو 25 مئی سے جیل میں قید تھا۔ ریاض نے انسٹاگرام پر لکھا تھا: چاہے جو ہو جائے، سپورٹ تو بس پاکستان کا کریں گے۔ اسی بنیاد پر اس کے خلاف سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور اسے گرفتار کر لیا گیا تھا۔
تاہم عدالت نے کہا کہ چارج شیٹ داخل ہو چکی ہے اور اب ملزم کو حراست میں لے کر تفتیش کرنے کی ضرورت نہیں، اس لیے اسے ضمانت دی جانی چاہیے۔ ریاض کی جانب سے دلیل دی گئی کہ اس کی پوسٹ میں نہ تو بھارت کا نام تھا، نہ قومی پرچم یا ایسا کوئی نشان جس سے ملک کی توہین ہوتی ہو۔ صرف پاکستان کے حق میں حمایت ظاہر کرنا BNS کی دفعہ 152 کے تحت قابل سزا جرم نہیں ہے۔
ریاستی حکومت نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی پوسٹس معاشرے میں نفرت پھیلاتی ہیں اور علیحدگی پسندی کو فروغ دیتی ہیں۔ تاہم عدالت نے سپریم کورٹ کے فیصلے "عمران پرتاپ گڑھی بمقابلہ ریاست گجرات" کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اظہار خیال اور رائے دینے کی آزادی آئین کا بنیادی حق ہے۔
عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ چونکہ دفعہ 152 کے تحت سخت سزا کا التزام ہے، اس لیے اس کے اطلاق میں خاص احتیاط برتنا ضروری ہے۔ صرف سوشل میڈیا پر کوئی پوسٹ کرنا، جب تک وہ بھارت کی خودمختاری، اتحاد اور سالمیت کو براہِ راست خطرے میں نہ ڈالے، مجرمانہ عمل نہیں مانا جا سکتا۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ چاہے معاملہ BNS کی دفعہ 196 کے تحت قابلِ سماعت ہو، لیکن اس پر کارروائی کرنے سے پہلے دفعہ 173(3) کے تحت ابتدائی جانچ ضروری تھی، جو اس معاملے میں نہیں کی گئی۔ ریاض کی کم عمر، مجرمانہ ریکارڈ نہ ہونا اور چارج شیٹ داخل ہونے کی بنیاد پر عدالت نے اسے مشروط ضمانت دی۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے ہدایت دی کہ آئندہ وہ کسی بھی طرح کی قابل اعتراض پوسٹ سے گریز کرے۔