-
فلسطینیوں کو بھوک سے قتل کرنا اسرائیل کی نئی چال
- سیاسی
- گھر
فلسطینیوں کو بھوک سے قتل کرنا اسرائیل کی نئی چال
7
M.U.H
22/05/2025
0
0
تحریر:ڈاکٹر رمضی براوض
دنیا میں فی الوقت کئی علاقوں میں خانہ جنگی اور جنگ و جدال کا سلسلہ جاری ہے اور جہاں تک ان تنازعات یعنی جنگوں اور خانہ جنگی کا سوال ہے ان میں انسانیت کو سب سے زیادہ نقصان پہنچتا ہے۔ بچے اور خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور سردست اس کرہ ارض پر اگر کہیں انسانیت مر رہی ہے تو وہ سرزمین فلسطین ہے جہاں اسرائل نے دہشت گردی کے تمام ریکارڈس توڑ دیئے ہیں۔ ساری دنیا یہ اچھی طرح جانتی ہے کہ اسرائل کس کی سرپرستی میں فلسطینیوں کے خلاف بدترین دہشت گردی کا ارتکاب کررہا ہے۔ اسرائل نے اپنے فضائی حملوں اور زمینی حملوں کے ذریعہ غزہ کو قبرستان میں تبدیل کرچکا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہیکہ گزشتہ 90 دن سے غزہ میں اناج کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچا۔ اسرائل جان بوجھ کر درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غذائی اشیاء تک فلسطینیوں کی رسائی کو روک دیا ہے اور فی الوقت غزہ میں قحط کی کیفیت پائی جاتی ہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائل کی جانب سے عائد کردہ ناکہ بندی کے نتیجہ میں 5 میں سے ایک فلسطینی بھوک کا شکار ہے۔ آپ کو بتادیں کہ غزہ پٹی میں کم از کم 5 ملین افراد یعنی 5 میں سے ایک فلسطینی کو بھوک کا سامنا ہے۔ فلسطینیوں کو اسرائل کی درندگی اور اس کی ناکہ بندی کے باعث قحط اور بھوک کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ انکشاف اقوام متحدہ کے مربوط فوڈ سیکوریٹی فیس کلاسیفکیشن (IPC) کی ایک خصوصی رپورٹ میں کیا گیا۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ فلسطین میں ہر روز اسرائل کی درندگی میں تقریباً 100 فلسطینی شہید ہو رہے ہیں۔ الجزیرہ کی ایک رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ 73 دن سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔ اسرائل نے تمام غذائی اشیاء پانی اور ادویات کو غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا ہے۔ 73 دن سے زائد عرصہ ہوچکا ہے اسرائل نے غزہ میں تمام غذائی اشیاء پانی اور ادویات کے داخلے کو روک دیا۔ آپ کو بتادیں کہ جاریہ سال کے آغاز سے اب تک 9 ہزار سے زائد بچوں کو ناقص غذا کا شکار ہونے پر علاج کے لئے اسپتالوں میں شریک کیا گیا۔ آئی پی سی کا یہ بھی کہنا ہیکہ 5 سال سے کم عمر کے 71000 بچے اب اور مارچ 2026 کے درمیان شدید ناقص غذا کا شکار ہوگئے جس میں 14100 بچے شدید ناقص غذا کے شکار ہوں گے۔ جہاں تک ناقص غذا کا سوال ہے ہر بچے کی زندگی کے ابتدائی 1000 دن بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں اس کی صحت بنتی ہے لیکن جب بچہ ناقص غذا کا شکار ہوتا ہے تو اس کے جسمانی وزن میں خطرناک حد تک کمی آتی ہے۔ اس کا قد بھی نہیں بڑھتا بلکہ وہ ٹھٹھر جاتا ہے۔ پڑھتے بچوں کو بعض Nutreents کی ضرورت ہوتی ہے جن میں پروٹینسز اور Fats شامل ہیں۔ اب غزہ بالخصوص شمالی غزہ کے بچوں کو پروٹینس اور Fats دستیاب نہیں ہیں۔ غزہ میں دودھ پلانے والی مائیں اور حاملہ خواتین جن کی تعداد کم از کم 17 ہزار ہے انہیں بھی ناقص غذا کا جوکھم لاحق ہے۔ غزہ میں اسرائلی درندگی کا یہ حال ہیکہ غِزہ کی ساری آبادی جو تقریباً 2.1 ملین نفوس پر مشتمل ہے غذائی قلت کا سامنا کررہی ہے۔ انہیں اپنی بقاء کا خطرہ لاحق ہے۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں غزہ سٹی میں بے گھر ہوئے احمد الخجار نے الجزیرہ کو بتایا کہ ایک وقت کا کھانا میسر ہونا بھی مشکل ہوگیا۔ غزہ کی 93 فیصد آبادی کو غذائی عدم تحفظ کی بلند ترین سطح کا جوکھم لاحق ہے۔
غزہ میں آج جس قسم کی خطرناک صورتحال پائی جاتی ہے اس سے اسرائل کی درندگی اس کی انسانیت دشمنی کا اظہار ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کو کیڑے مکوڑوں سے بھی کمتر جانتا ہے۔ اسرائل کی جانب سے کی گئی ناکہ بندی کے نتیجہ میں 2 ملین سے زائد فلسطینیوں کی بقاء کو خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ تباہ شدہ غزہ سٹی میں بھی اسرائل اپنے ظلم و جبر کے ذریعہ فلسطینیوں کا جینا محال کررکھا ہے۔ 23 اپریل کو OCHA (اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور نے غزہ کی موجودہ انسانی صورتحال کو اس جنگ کی اب تک کی بدترین صورتحال قرار دیا ہے۔ اسرائل غزہ میں کھلے عام عالمی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ وہ ایسا لگتا ہے کہ فلسطینیوں کو ناقص غذا کا شکار بناکر بھوک کے ذریعہ موت کے گھاٹ اتارنے کا خواہاں ہے اور دوسری طرف ساری دیا بالخصوص عالم اسلام مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔