-
بالادستی کی جنگ اور مسئلۂ فلسطین
- سیاسی
- گھر
بالادستی کی جنگ اور مسئلۂ فلسطین
509
M.U.H
16/09/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
مشرق وسطیٰ سے اب امریکی برتری کی بساط سمٹتی جارہی ہے ،یہ ایک زندہ حقیقت ہے ۔امریکہ اپنی برتری کو بچانےکے لئے مغربی طاقتوں کے سہارے یوکرین اور غزہ کی جنگ کو مزید پھیلارہاہے ۔یوکرین کی جنگ کب کی ختم ہوچکی ہوتی مگر مغربی طاقتوں نے آگ میں گھی ڈالنے کا کام کیا۔اسی طرح غزہ میں بھی جنگ بندی پر جامع معاہدہ تشکیل پاچکاہوتامگر امریکی مداخلت نے سرانجام نہیں ہونے دیا۔اس کی زندہ مثال قطر میں موجود حماس کی قیادت پر اسرائیلی حملے سے دی جاسکتی ہے ۔امریکہ جنگ بندی معاہدے کا مسودہ پیش کرکے حماس کو مذاکرات کی دعوت دیتاہے اور جب اس کی قیادت معاہدے پر غوروخوض کے لئے جمع ہوتی ہے تو امریکی ایماپر اسرائیلی فوجیں حملہ ور ہوجاتی ہیں ،تاکہ انہیں خوف زدہ کرکے اپنی مرضی کے معاہدے پر آمادہ کیاجاسکے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ مغربی طاقتیں غزہ میں شکست کھاچکی ہیں مگر شکست کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں ۔لہذا وہ کسی ایسے معاہدے کو تسلیم کرواناچاہتی ہیں جس سے ان کی برتری ظاہر ہوسکے ۔یہی صورت حال یوکرین میں بھی کارفرماہے ۔مغرب چاہتاہے کہ پوتن اور زیلنسکی ان کی مداخلت کے بغیر کسی معاہدے پر متفق نہ ہوں بلکہ جنگ بندی ان کے زیر اثر اورانہیں کے شرائط کے مطابق عمل میں آئے تاکہ اپنی ختم ہوتی ہوئی بالادستی کو بچایاجاسکے ۔مگر ماہ اگست کے آخرمیں چین میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کے سربراہی اجلاس میں جس طرح چینی صدر شی جنگ پنگ اور ولادیمیر پوتن نے قیادت کی اس نے مغرب کی نام نہادبالادستی کو طشت از بام کردیا ۔چین اور روس نئے سیاسی بلاک کی تشکیل کے لئے ایک عرصے سے سرگرم ہیں ،جس کا اثر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں دیکھاگیا۔اس کے علاوہ چین نے گزشتہ دنوں جنگ عظیم دوم کی کامیابی کے موقع پر فوجی پریڈ میں مختلف ملکوں کو شامل ہونے کی دعوت دی جس میں روس ،ہندوستان،شمالی کوریا،ایران اور پاکستان سمیت تقریباً چالیس ملکوں کےسربراہان نے شرکت کی ۔اس فوجی پریڈ کا مقصد ’نیٹو ‘ کے خلاف ایک ایسے فوجی اتحاد کو واضح کرناتھاجس سے مشرق وسطیٰ کی بالادستی ظاہر ہوسکے ۔خاص طورپر چین نے اس صورت حال کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور اپنی علاقائی بالادستی کے اظہار میں کوئی کمی نہیں کی ۔چین اور روس کے ساتھ علاقائی ممالک کا بڑھتاہوا اتحاد اور فوجی اشتراک مشرق وسطیٰ میں کثیر قطبی نظام کی طرف واضح پیش رفت ہے ،جس سے مغربی طاقتیں یقیناًخوف زدہ ہوں گی ۔
مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کی ذمہ داری مغربی طاقتوں پر عائد ہوتی ہے ۔یہ الگ بات کہ مغرب زدہ میڈیا اپنے آقائوں کے جرائم کی پردہ پوشی کرتارہتاہے ۔ورنہ افغانستان ،عراق ،لیبیا،یمن اور شام کی تباہی سے لے کر یوکرین اور غزہ کی بربادی کا پورا منظرنامہ مغربی طاقتوں نے تیار کیاہے ۔میڈیا تمام حقائق سے باخبر ہے مگر اس کی لگام انہیں طاقتوں کے ہاتھ میں ہے ،اس لئے دنیا تک بدلے ہوئے حقائق پہونچتے ہیں ۔عراق اور شام میں قدرتی ذخائر پر قبضہ کرکے ان ملکوں کی دولت کو لوٹاجارہاہے تو دوسری طرف مسلم ملکوں میں اپنے آلۂ کار حکمرانوں کو مسلط کرکے علاقے میں اپنی بالادستی کو مستقر کرنے کی کوشش جاری ہے ۔قطر،سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں میں امریکی فوجی اڈے موجود ہیں ۔ان کا پورا دفاعی نظام مغرب پر منحصر ہے ۔ترکیہ جو اب نیٹو کا حصہ ہے ہمیشہ استعماری طاقتوں کے پالے میں کھیلتارہاہے ۔اسرائیل کو خطے میں اپنی چودھراہٹ کے اظہار کے لئے ایک غنڈے کی طرح مقرر کیاگیاہے ،جس کے دفاع کا مکمل انحصار استعمار پر ہے ۔اس لئے استعمار کبھی نہیں چاہے گاکہ اعلانیہ اسرائیل کی شکست کو تسلیم کیاجائے کیونکہ اس طرح اس کی علاقائی بالادستی پر ضرب پڑے گی ۔عرب ممالک استعماری کالونی کا حصہ ہیںلہذا ان ملکوں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ غزہ یا عالم اسلام کے مفاد میں کوئی موثر قدم اٹھائیں گے ۔کیونکہ ان کی حکومتیں اپنی بقاکے لئے امریکی مدد پر منحصر ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان صہیونی حملے کے بعد عسکری ردعمل کے بجائے واشنگٹن دورے پر جارہے ہیں تاکہ ٹرمپ سے نتن یاہو کی شکایت کرسکیں ۔جن ممالک کے حکمرانوں میں اپنے فیصلے آپ لینے کی جرأت نہ ہووہ مسئلۂ فلسطین کے حل اور غزہ کے مظلوموں کی حمایت میںہرگز عملی اقدامات نہیں کرسکتے ۔
امریکہ نے اپنی بالادستی کے لئے جنگوں کے وجود کو ضروری سمجھا۔اس حکمت عملی نے اس کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیاہے ۔ویتنام جنگ کے بعد امریکی عوام کسی نئی جنگ کے حق میں نہیں تھے مگر نائن الیون کے بعد صور ت حال بدل گئی ۔امریکہ نے نائن الیون کے بہانے دنیاپر نئی جنگیں مسلط کردیں جب کہ ان جنگوں کے ٹھوس جواز موجود نہیں تھے ۔اس کے بعدہر امریکی صدر نےقیام امن کے نام پر نئی جنگ چھیڑی جس کا خمیازہ دنیا بالخصوص مشرق وسطیٰ کو بھگتناپڑا۔امریکہ بھی براہ راست اُن جنگوں سے متاثر ہوا۔جنگوں کے بھاری اخراجات نے اس کے اقتصاد کی کمر توڑدی ۔یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو تجارتی ٹیرف میں اضافے کے علاوہ امریکی معیشت کی ڈوبتی کشتی کو بچانے کا کوئی دوسراراستہ نظر نہیں آیا۔ان کا یہ دائوں بھی الٹاپڑگیاکیونکہ ہندوستان جیسے دیگر ملک جو امریکہ سے براہ راست تجارتی روابط رکھتے ہیں ،ٹرمپ کے عائد کردہ اضافی ٹیرف کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔خاص طورپر چین جو امریکی معیشت کے لئے بڑاچیلینج بن کر ابھرا ہے،امریکی داداگیری کے سامنے جھکنے کو تیارنہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہواکہ چین نے بھی امریکی برآمدات پر نئے ٹیرف عائد کردئیے ۔ہندوستان پر عائد کردہ اضافی ٹیرف پر امریکہ نے جواز پیش کرتے ہوئے کہاکہ ہندوستان کو روس کے ساتھ تجارتی روابط منقطع کرنے ہوںگے کیونکہ روس سے تجارت یوکرین جنگ میںاس کا ساتھ دینے کے برابر ہے ۔اس بیان سے یہ بھی ظاہرہوگیاکہ یوکرین کی شکست نے امریکی صدر کو نفسیاتی مریض بنادیاہے ۔ورنہ ہندوستان اور روس کے تجارتی روابط نئے نہیں ہیں ۔اگر امریکہ کو روس سے تجارتی رابطے پر اعتراض ہےتو اس کا اظہار بہت پہلے ہوجاناچاہیے تھا۔دوسرے ہندوستان نے غزہ جنگ میں واسطہ یا بلاواسطہ امریکی بلاک کی حمایت کی ہے،اس کا ثمر بھی نریندر مودی حکومت کو نہیں ملا۔البتہ نتن یاہو مودی حکومت کو جھوٹی تسلیاں دیتے رہے کہ بہت جلد امریکہ اور ہندوستان کے درمیان خوشگوار روابط دوبارہ استوار ہوجائیں گے ،مگر ایسانہیں ہوا۔اس کےبجائے امریکہ کا رجحان تیزی کے ساتھ پاکستان کی طرف بڑھ رہاہے ،گویا یہ اقدام بھی ہندوستان کو چڑھانے کے مترادف ہے ۔یوں بھی ٹرمپ کے متنازعہ بیانات نے نریندر مودی حکومت کی چولیں ہلادی ہیں ۔ان کا مسلسل یہ دہراناکہ ہندوپاک کے درمیان جنگ بندی ان کے دم پر ہوئی ،مودی حکومت کے تئیں عوامی تنفر کا سبب بن رہاہے ۔عوام کو تو اب تک یہ باورکرایاگیاکہ تھا’بھارت وشووگرو‘ ہے جو ہرگزکسی طاقت کے سامنے نہیںجھک سکتا۔مگر ٹرمپ کے جنگ بندی پر مسلسل دعوئوں نے نریندر مودی کے دعوئوں کی پول کھول دی ،اس لئے مودی حکومت کا ٹرمپ پر غیر ضروری انحصار اان کے اقتدار کے لئے ہی خطرے کی گھنٹی بن گیاہے۔
مسلم حکمرانوںسے زیادہ غیرت مند تو وہ لوگ ہیں جو اسرائیلی حملےکے یقینی خطرات کے باوجود ’گلوبل صمود فلوٹیلا ‘ کے ذریعہ غزہ کے مظلوموں کے لئے انسانی رسد لے کر نکلے ہیں ۔ان کا مقصد اسرائیل کے ذریعہ غزہ کے انسانی محاصرے کو توڑناہے ،جس کی اس سے پہلے بھی کوشش ہوچکی ہے ۔اس امدادی قافلے پر اب تک دومرتبہ ڈرون سے حملے ہوچکے ہیں مگر قافلے میں شامل افراد نے ہارتسلیم نہیں کی ۔اسی انسانی غیرت کا مسلم حکمرانوں میں فقدان ہے ۔مغرب اور مشرق میں بڑھتی ہوئی اسی انسانی بیداری نے امریکی بالادستی کے خاتمے کی نئی تحریک شروع کی ہے ۔اس کا مشاہد ہ تب ہواجب ایک ریسٹورینٹ میں ڈونالڈ ٹرمپ کی موجودگی میں امریکی عوام نے ’فلسطین کی آزادی‘ کے نعرے لگائے ۔مغربی ملکوں کے عوام مسلسل سڑکوں پر نکل کر غزہ کی حمایت اور فلسطین کی آزادی کے لئے احتجاج کررہے ہیں ۔خاص طورپر دنیابھر کی یونیورسٹیوں کے طلبہ میں فلسطین کے مسئلے پر بیداری کی نئی لہردیکھی گئی ہے جو مغربی طاقتوں کی انسانیت دشمن پالیسیوں کے خلاف ایک خوش آئند اشارہ ہے ۔دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ صہیونی ریاست کی جھوٹی مظلومیت طشت از بام ہوچکی ہے اور دنیا میں اس کے تئیں نفرت بڑھ رہی ہے۔یہی بڑھتی ہوئی نفرت صہیونی ریاست کے خاتمے اور فلسطینی ریاست کی تشکیل اور تسلیم میں اہم کردار اداکرے گی۔