-
’ایک بالشت زمین بھی نہیں ‘!
- سیاسی
- گھر
’ایک بالشت زمین بھی نہیں ‘!
417
M.U.H
07/10/2025
0
0
تحریر: عادل فراز
کیا آج کوئی مسلم حکمران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور نتن یاہو کو ایساجواب دینے کی جرأت کرسکتاہے؟ہرگز نہیں!
یہ جواب سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبدالحمید ثانی نے صہیونی ریاست کی تشکیل کے لئے جدوجہد کرنے والے سرمایہ داروں اور نظریہ ساز افراد کو دیاتھا۔جب کہ اس وقت سلطنت عثمانیہ کمزور ہوچکی تھی اور اس پر اربوں ڈالر کا قرض تھااس کے باوجود سلطان عبدالحمید ثانی کی غیرت نے یہ گوارانہیں کیاکہ قبلۂ اول کو صہیونیوں کے ہاتھوں نیلام کردیاجائے ،مگر آج عرب ریاستیں فلسطین سے خیانت کررہی ہیں اور پوری طرح صہیونی ریاست کے قیام کے لئے کمربستہ نظر آرہی ہیں۔
صہیونی ریاست کو تسلیم کروانے کی تحریک تو روز اول شروع ہوچکی تھی ،مگر بیسویں صدی کے اوائل میں اس کے لئے منظم جدوجہد کا آغاز ہوا۔صیہونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل نے سلطنت عثمانیہ کا بھاری قرضہ ادا کرنے کے بدلے سلطان عبدالحمید ثانی سے اُن کے زیرنگیں فلسطین کو یہودیوں کے لئے حاصل کرنے کی پیش کش کی تھی ۔تھیوڈور ہرزل نے سلطنت عثمانیہ کی متزلزل معیشت اوربھاری قرض کی بناپر یہ سوچاکہ فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے لئے سلطان عبدالحمید سے فلسطین کو قانونی طورپر حاصل کرلیں تاکہ عالمی سطح پر صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا راستہ صاف ہوسکے۔سلطنت عثمانیہ پر تقریباً چودہ ارب ڈالر کا قرض تھا،اس قرض کے بدلے ان سے فلسطین کی زمین کا مطالبہ کیا گیاجس پر سلطان عبدالحمید کا جواب تھا:’ایک بالشت زمین بھی نہیں‘!مسلمان آج اپنے حکمرانوں سے اسی غیرت اور جرأت مندی کی توقع لگائے بیٹھے ہیںمگر ان میں سلطان عبدالحمید کی غیرت وحمیت موجود نہیں ہے ۔ان کے بعد اگر اس غیرت اور شجاعت کا کسی نے مظاہرہ کیاتو وہ انقلاب اسلامی ایران کے بانی آیت اللہ روح اللہ خمینیؒ تھے ،جنہوں نے مسئلۂ فلسطین کو نئی زندگی بخشی ۔
۷ اکتوبر طوفان الاقصیٰ سے پہلے دنیا مسئلۂ فلسطین کی اہمیت اور غزہ کی بدترین صورت حال کی طرف متوجہ نہیں تھی ۔غزہ کو ’زندہ انسانوں کی جیل‘ سےتعبیر کیاجاتاتھامگر کبھی دنیا نے غزہ کے باشندوں کی آزادی کے لئے کوئی جدوجہد نہیں کی ،لیکن جب انہوں نے اپنی آزادی کے لئے ’طوفان الاقصیٰ‘ آپریشن انجام دیاتو انہیں دہشت گرد کہاجانے لگا۔دنیا کے اسی دوہرے رویے نے دہشت گردی کو فروغ دیااور صہیونی دہشت گردی کو ان کے وجود کی جنگ سے تعبیرکرکے فلسطینیوں کی نسل کشی کا جواز فراہم کیا۔لیکن رفتہ رفتہ دنیا نے صہیونی دہشت گردی کا اصلی چہرہ دیکھ لیااور پوری دنیاغزہ کی حمایت میں سراپا احتجاج نظر آنے لگی ۔اس سے پہلے کبھی دنیا میں صہیونی حکومت کے خلاف اور فلسطینی ریاست کےقیام کے مطالبے کے لئے اتنے بڑے پیمانے پر احتجاج نہیں ہوئے جس میں غیر مسلموں کی بڑی تعداد شامل ہے ۔حتیٰ کہ ان ملکوں میں بھی عوام اہل غزہ کی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئے جن کی حمایت اسرائیل کو حاصل تھی ۔خاص طورپر امریکہ اور اس کے حلیف ملکوں میں بھی عوام نے غزہ میں جاری صہیونی بربریت کے خلاف احتجاج کرکے مسئلۂ فلسطین کو حل کرنے کا مطالبہ کیا،جو تاریخ میں پہلی بار ہورہاتھا۔’گلوبل صمود فلوٹیلا‘ پر صہیونی حملے اور اس قافلے میں موجود ۸۸ ممالک کے اراکین کو حراست میں لئے جانے کے بعد جس طرح یوروپی ملکوں کے عوام میں بے چینی پیداہوئی وہ نئے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے ۔لیکن مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور غلامی اس انقلاب کے پودے کو پھلنے پھولنے نہیں دیتی ،جس کا احساس اب عالم اسلام کو بھی ہورہاہے ۔ان کی بے حسی کی بنیاد پر ہی امریکی صدر ٹرمپ نے غزہ میں جنگ بندی اور امن کے استحکام کے نام پر بیس نکاتی امن منصوبہ پیش کیاہے جس کی عرب ملک بڑھ چڑھ کر حمایت کررہے ہیں ۔یہ امن منصوبہ مزاحمتی محاز کے خاتمے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوگااور آئندہ غزہ میں کبھی مقاومتی تحریک کھڑی نہیں ہوسکے گی۔
آئیے پہلے ٹرمپ کے بیس نکاتی امن منصوبے کے اہم پہلوئوں کا جائزہ لیتے ہیں۔پہلے تو یہ معلوم ہوناچاہے کہ موجودہ امن منصوبہ ماضی میں پیش کئے گئے ’صدی معاہدہ‘ سے مختلف نہیں ہے۔’صدی معاہد ہ‘ ٹرمپ کے داماد جارڈ کشنز نے تیار کیاتھااور موجودہ امن منصوبہ بھی ٹرمپ کے ایلچی اسٹیووٹکوف کے ساتھ مل کر جارڈ کشنز نے ہی تیار کیاہے۔’صدی معاہدہ ‘ کی تشکیل میں بھی بالکل اسی طرز کا انتخاب کیاگیاتھاجو غزہ میں جنگ بندی کے لئے پیش کئےگئے امن منصوبے کی تشکیل میں کیاگیاہے ۔ اس منصوبے میں جنگ بندی، اسرائیلی افواج کے محدود انخلا ءکے علاوہ حماس سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ باقی تمام یرغمالیوں کو رہا کرے اور اس کے بعد اسرائیل کے زیر حراست سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔غزہ میں روز مرہ کے معاملات کی انجام دہی کے لئے ایک مقامی ’ٹیکنو کریٹک انتظامیہ‘ کے قیام کا تصور بھی پیش کیاگیاہے جس کی نگرانی ’بورڈ آف پیس‘ کرے گاجو مصر میں قائم کیاجائے گا۔حماس کے جو اراکین بقائے باہمی اور ہتھیار ترک کرنے کے عہد پر عمل کریں گے انہیں معافی دی جائے گی اور جو ایسانہیں کریں گے انہیں جلاوطن کردیاجائے گا۔غزہ کے استحکام کے لئے امریکہ اور عرب ملکوں کی طر ف سے تشکیل دی جانے والی بین الاقوامی ’استحکام فورس‘ غزہ کے حفاظتی انتظامات سنبھالے گی اور فلسطینی گروہوں کو غیر مسلح بنانے کے عمل کو یقینی بنائے گی۔قابل غور یہ ہے کہ اس مسودے میں فلسطینی ریاست پر کوئی بات نہیں کی گئی ہے جب کہ دنیا آزادفلسطینی ریاست کے قیام کا مطالبہ کررہی ہے ،اس کے باوجود اس مطالبے کو نظر انداز کیاگیاہے ۔جو اصطلاحات مسودے میں فلسطینی ریاست کے لئے وضع کی گئی ہیں ان سے ریاست کے خدوخال واضح نہیں ہوتے البتہ عرب ملکوں نے اس منصوبے کا خیر مقدم کیاہے۔حماس نے مسودے کے مطالعے کے بعد اپنا موقف پیش کرنے کے لئے کہاہے جب کہ ٹرمپ نے انہیں تین سے چار دن کا وقت دیتے ہوئے کہاہے کہ عرب ملکوں نے اس منصوبے کو قبول کرلیاہے لیکن اگر حماس نے تسلیم نہیں کیاتو ان کا انجام افسوس ناک ہوگا،گویا ٹرمپ اس منصوبے کو من وعن منوانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار نظر آرہے ہیں۔اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ امریکہ براہ راست صہیونی ریاست کی تشکیل،تنظیم ،تسلیم اور تحفظ کے عمل میں شامل ہے ،جس کا اندازہ عرب ملکوں کو اب تک نہیں ہوسکا۔اقوام متحدہ میں جس طرح امریکہ نے اسرائیل کی پشت پناہی اور حمایت کی اس کی نظیر ماضی میں کم ہی ملے گی ۔جنگ بندی کی قرارداد کو ہربار امریکہ نے ویٹو کرکے اسرائیلی جارحیت کو کھلاجواز فراہم کیا۔غزہ کی تباہی میں تنہا اسرائیل ملوث نہیں ہے بلکہ امریکہ ،اس کے حلیف ممالک اور عرب ریاستیں بھی شامل ہیں
ٹرمپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ عرب ریاستوں کے اتفاق رائے سے کچھ حاصل نہیں ہوگاجب تک مقاومتی محاذ کی رضامندی حاصل نہیں ہوگی ،اس لئے مجوزہ امن معاہد ہ پیش کرنے کے فوراًبعد انہوں نے حماس کو انتباہ دیتے ہوئے کہاکہ اگر حماس اس پر رضامند نہیں ہواتو اسرائیل حماس کو ختم کرنے کے لئے جو کچھ کرناچاہے گاامریکہ اس کی حمایت کرے گا۔یہی دھمکی نتن یاہو نے اسرائیل واپسی کے بعد حماس کو دی اور کہاکہ ہم نے امریکی منصوبے کو قبول کرلیاہے لیکن اگر حماس نے ایسانہیں کیاتو ہم اکیلے ہی اس جنگ کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیں گے۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ امریکی صدر سے گفتگو میں فلسطینی ریاست پر اتفاق نہیں ہوااور نہ مسودے میں فلسطینی ریاست کے لئے کوئی تجویز پیش کی گئی ہے ۔عرب حکمران اگر اس معاہدے پر آمادگی کااظہارکررہے ہیں تو اس پر تعجب نہیں ہوناچاہیے ۔یہ لوگ پہلے ’صدی معاہدہ ‘ قبول کرچکے تھے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت قراردیاگیاتھا،اور اب غزہ کو صہیونی فوجوں کے حوالے کرناچاہتے ہیں ۔مسلمانوں کو یاد رکھناچاہیے کہ جو ملک اپنے اوپر ہونے والے حملے کا جواب دینے کی طاقت نہ رکھتے ہوں وہ فلسطین کی حمایت اور غزہ سے اسرائیلی فوجوں کےانخلاء کامطالبہ کیسے کرسکتے ہیں ۔قطر پر اسرائیلی حملے اور اس حملے کے بعد قطر کی حالت سے صورت حال کا اندازہ لگایاجاسکتاہے ۔خیر اب تو نتن یاہو نے قطر سے معافی مانگ لی ہے لہذا قطر پر دوبارہ حملہ نہیں ہوگا،مگر دیکھنایہ ہے کہ نتن یاہو اگلی بار کس مسلم ملک سے معافی مانگنے کے لئے حملہ کریں گے ۔