-
اہل غزہ کی استقامت اور مسلم حکمران
- سیاسی
- گھر
اہل غزہ کی استقامت اور مسلم حکمران
219
M.U.H
26/05/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
غزہ میں جاری نسل کشی اور انسانی وسائل کا بحران بڑھتاجارہاہے ۔عالمی طاقتیں اسرائیل کی پشت پر کھڑی ہیں اور غزہ کو برباد دیکھ کر خوشیاں منارہی ہیں ۔گوکہ اب عالمی رائے اسرائیل کے خلاف ہے مگر جب تک امریکہ اس کے ساتھ کھڑاہے ،اسرائیل کو کسی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس وقت دنیا کے کونے کونے میں اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہورہی ہے مگر اس کا اثر نظر نہیں آیا ۔اگر دنیاغزہ کے تئیں مخلص اور فکر مند ہوتی تو اب تک رفح کراسنگ کو امدادی سامان کی ترسیل کے لئے کھلوایاجاچکاہوتا۔اقوام نے غزہ میں پھیلتی بھکمری کے سلسلے میں جو انتباہ دیاہے اس کے بعد بھی عالمی طاقتوںکے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔اقوام کے انسانی امور کے سربراہ ٹام فلیچر نےبیس مئی کو’ بی بی سی‘ کو دئیے گئے ایک انٹرویو میں کہاتھاکہ’ اگر اگلے اڑتالیس گھنٹوں میں غزہ کو فوری مدد فراہم نہ کی گئی تو چودہ ہزاربچوں کی زندگیاں خطرے میں پڑجائیں گی۔ فلیچر نے کہا کہ حالات اب اس قدربدتر ہو چکے ہیں کہ اگر بروقت مدد نہ ملی تو یہ بحران نسل کشی میں تبدیل ہو سکتا ہے۔‘اس انتباہ کے بعد دنیا کو اسرائیل کے خلاف متحد ہوجاناچاہیے تھامگر ایسانہیں ہوا۔اس بارے میں دنیا سے کیاگلاکرناکیونکہ جب نام نہاد مسلم حکمران امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے غزہ جنگ بندی پر بات نہیں کرسکے تو پھر کسی سے کیاامید رکھی جاسکتی ہے ۔ٹرمپ کے دورۂ مشرق وسطیٰ پر جتنی دولت خرچ کی گئی اس سے غزہ کے عوام کو ضروریات زندگی فراہم کرائی جاسکتی تھیں ،مگر امریکی صدر کے سامنے مسلمانوںکے ناموس کو بے حیائی کے ساتھ رقص پر مجبور کرنے والے حکمران نہ تو مسئلۂ فلسطین کے حل پر سنجیدہ ہیں اور نہ انہیں غزہ میں جنگ بندی سے کوئی دلچسپی ہے ۔یہ لوگ صرف اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے سرگرداں ہیں ۔
امریکی صدر کا دورۂ مشرق وسطیٰ عالم اسلام کو خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لئے کافی ہے۔اس دورے کا مقصد مسلم حکمرانوں پر اپنی بالادستی کااظہار اور ان کی غلامانہ ذہنیت کو دنیا کے سامنے آشکارکرناتھا۔جب کہ اس سے پہلے بھی امریکی صدور یہ کام کرچکے ہیں مگر اس بار ذرانرالے انداز میں کیاگیا۔ٹرمپ نے اپنے گذشتہ دور صدارت میں جب فلسطینیوں کے خلاف ’صدی معاہدہ ‘ کا مسودہ پیش کیاتھااس وقت بھی عرب کے حکمرانوں نے اُس منصوبے کی تائید کی تھی ۔یہ الگ بات کہ انہوں نے اعلانیہ اسرائیل کو فلسطین سونپنے کی حمایت نہیں کی مگر ’صدی معاہدہ ‘ کا منصوبہ فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا باضابطہ اعلان تھا۔اس کے بعد امریکی صدر کی حمایت سے یروشلم کو اسرائیل کا پایۂ تخت تسلیم کرلیاگیا۔جوئے بائیڈن کی شکست اور ٹرمپ کی فتح کے بعد ایک بارپھر ’صدی معاہدہ ‘ کا منصوبہ غیر اعلانیہ طورپر نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس سلسلے میں ٹرمپ نے پہلا اعلان کرتے ہوئے کہاتھاکہ وہ غزہ کو خریدنے اور اس کا مالک بننے کے لئے پُر عزم ہیں۔گوکہ اس اعلان کی چوطرفہ مخالفت ہوئی مگر یہ مخالفت برائے نام تھی ۔اب جب کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ کے دورے پر تھے تو پوری دنیا نے ان کے مخفی عزائم کوجانچابھی اور پرکھابھی ۔اُس پر جس طرح مسلم حکمرانوں نے اسلامی غیرت کو روندتے ہوئے ان کا استقبال کیااس سے اندازہ ہوتاہے کہ عربوںمیں صہیونی عناصرپوری طرح داخل ہوچکے ہیں اور ’گریٹر اسرائیل ‘ کے خدوخال بھی واضح ہونے لگے ہیں ۔یہودیوں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ ’گریٹر اسرائیل ‘ کے نقشے کے مطابق تمام جگہوں پر آباد ہوسکیں ۔البتہ وہ ’ارض وعدہ‘ پر اپنے افراد اور حکمران مقرر کرکے اس منصوبے کو عملی شکل دے سکتے ہیں ،جس پر مسلسل کام ہورہاہے ۔خانۂ کعبہ کی آمدنی بھی اس منصوبے کی کامیابی پر خرچ کی جارہی ہے ۔اسی آمدنی سے امریکی صدر کی ذہنی عیاشی کے انتظامات کئے گئے تھے ۔اس پر چارسوملین ڈالر کا جہازتحفے میں دے کر عالم اسلام کے خودساختہ رہنمائوں نے ’شیطان بزرگ‘ کے ہاتھوں پر اعلانیہ بیعت کرلی ۔اس کے بعد بھی اگر مسلمان ان کی حمایت کرتے ہیں اور انہیں اپنا مذہبی پیشوا تسلیم کرتے ہیں توپھر اس سے زیادہ ذہنی غلامی اور فکری پستی کی مثال اور کیاہوسکتی ہے ۔
امریکی صدر نے دورۂ مشرق وسطیٰ کے وقت نہ تو قیام امن کے لئے کوئی اقدام کیااور نہ اس خطے کے مفادات کی پرواہ کی ۔مشرق وسطیٰ اس وقت بارود کے ڈھیر پر ہے ۔ہر طرف جنگی صورت حال کارفرماہے ۔ایسے بدتر حالات میں امریکی صدر عربوں کی عیاشی کا مزہ لینے کے لئے مشرق وسطیٰ کے دورے پر نکلے تھے یاپھر عالم اسلام کو اعلانیہ رسواکرنے کاارادہ رکھتے تھے۔امریکہ اور سعودی عربیہ کے درمیان 142 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدوں پردستخط ہوئے ،جو تاریخ کا سب سے بڑا دفاعی معاہد ہ کہاجارہاہے ۔آخر ان دفاعی معاہدوں کا فائدہ کیاہے اگر عالم اسلام کی حرمت اور غیرت کا دفاع نہ کیاجاسکے ۔اس کےعلاوہ سعودی عربیہ نے آئندہ دس برسوں کے لئے امریکہ سے ایک کھرب ڈالر پر مشتمل سرمایہ کاری اور تجارتی وعدے کئے ہیں ،جنہیں یقیناًپوراکیاجائے گاکیونکہ یہ معاہدے ہاتھی کے اُن دانتوں کی طرح ہیں جو صرف دکھانے کے لئے ہوتے ہیں ،پس پردہ تمام معاہدوں کو امریکہ بذات خود پایۂ تکمیل تک پہونچائے گاکیونکہ ان ملکوں میں اسی کے آلۂ کار اقتدار پر مسلط ہیں۔قطر سے 2.1ٹریلین ڈالر کے اقتصادی معاہدے اس سے الگ ہیں ۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ استعمار کے لئے مشرق وسطیٰ کتنا اہم ہے ۔اسی بناپر اسرائیل کے ذریعہ پورے مشرق وسطیٰ میں امریکی چودھراہٹ کو فروغ دیاجارہاہے ۔مسلمان جب تک استعمار کی غلامی کرتے رہیں گے یہ صورتحال ہرگز تبدیل نہیں ہوگی ۔اس کے لئے سب سے پہلے مسلمان ملکوں کے عوام کو اپنے حکمرانوں کی بے دینی اور غلامی کے خلاف کھڑاہوناہوگا۔اقتدار کی تبدیلی کے بغیر مشرق وسطیٰ کے حالات تبدیل نہیں ہوسکتے ۔
مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور بے حیائی کا اندازہ اس سے لگایاجاسکتاہے کہ انہوں نے امریکی صدر سے غزہ جنگ بندی پر کوئی بات نہیں کی ۔کیا اس وقت مشرق وسطیٰ میں غزہ سے زیادہ اہم اور ضروری کوئی دوسرا موضوع ہے ؟اگر اتنے مسلم ملک مل کر ایک اسرائیل کو دہشت گردی سے باز نہیں رکھ پارہے ہیں تو اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کا فائدہ کیاہے؟ استعمارکل ان پر بھی کسی بڑی طاقت کو مسلط کردے گااور ان کے دفاعی معاہدے دھرے رہ جائیں گے ۔کیاعرب حکمران غزہ کی موجودہ صورتحال سے بے خبر ہیں ۔کیا انہیں علم نہیں کہ غزہ میں بھکمری کا سایہ پھیلتاجارہاہے ۔انہیں ٹرمپ سے اس موضوع پر بات کرکے رفح کراسنگ کو انسانی امداد کے لئے کھلواناچاہیے تھا۔وہ عرب ممالک جو ہمیشہ عالمی طاقتوں اور مزاحمتی قوتوں کے درمیان ثالثی کا کردار اداکرتے آئے ہیں، اُنہیں آگے آکر اس پر بات کرنی چاہیے تھی مگر ایسانہیں ہوا۔تمام عرب حکمران ٹرمپ کی خوشامد میں لگے ہوئے تھے اور انہیں عالم اسلام کا مسیحاثابت کرنے کی کوشش کی جارہی تھی ۔ان سے زیادہ موثر دبائو توغیر مسلم ملکوں نے بنایاہےجس میں بعض اسرائیل کے حلیف ملک بھی شامل ہیں۔
غزہ میں جنگ بندی کے سلسلے میں سب سے موثر آواز اسرائیل کے عوام کی طرف سے اٹھنی چاہیے ۔جب تک اسرائیلی عوام نتن یاہو کے خلاف متحد نہیں ہوں گے امن قائم نہیں ہوسکتا۔انہیں یہ یاد رکھناچاہیے کہ غزہ کی نسل نوکبھی اسرائیل کے جرائم کو معاف نہیں کرے گی ۔کیا اسرائیل حماس کو ختم کرکے ،یا انہیں خودسپردگی پر مجبورکرکے ،اپنے خلاف نئی نسل کے غصے کو دباپائے گا؟ہرگز نہیں !اگر اسرائیل حماس کو ختم یاانہیں خودسپردگی پر مجبورکرنے میں کامیاب ہوبھی جاتاہے تب بھی وہ نئی نسل میں پنپتی ہوئی مزاحمت اور بغاوت کی چنگاریوں کو شعلہ بننے سے روک نہیں سکتا۔لہذا اسرائیلی عوام کو اپنے حکمرانوں کے جنگی جنون کے خلاف متحد ہوکر سڑکوں پر اترناہوگا۔نتن یاہو کو اقتدار سے بے دخل کرکے اس کا احتساب کرناہوگا۔ورنہ اسرائیل کبھی یہودیوںلئے محفوظ پناہ گاہ نہیں بن پائے گا۔آئندہ بھی سات اکتوبر طوفان الاقصیٰ جیسے حملوں کےلئے اسرائیل کو تیار رہناہوگا۔کیونکہ ظالمانہ نسل کشی مزاحمت اور بغاوت کو پنپنے سے نہیں روک سکتی!