-
یرغمال جمہوریت کو بچانے کی جدوجہد
- سیاسی
- گھر
یرغمال جمہوریت کو بچانے کی جدوجہد
485
M.U.H
01/09/2025
0
0
تحریر:عادل فراز
ہندوستانی سیاست کا طریق بھی نرالاہے ۔اس ملک میں جب بھی اقتدار کو خطرہ لاحق ہوتاہے تو ذات پات ، مذہب یا قومیت کی پناہ تلاش کی جاتی ہے ۔کمزور حکمران اپنی کرسی کی بقاکے لئے عوامی جذبات سے کھیلتے ہیں ۔قومیت کے سائے میں پناہ تلاش کرنا ہارے ہوئے حکمران کا آخری سہاراہوتاہے ۔مگر بی جے پی نے تو قومیت کی آڑ میں ہی اقتدار حاصل کیاتھا،اس لئے اس حربے کو نریندر مودی نے سب سے زیادہ استعمال کیا۔خواہ مسلمانوں کی حب الوطنی پر حملہ کرکے خود کو ہندوئوں کا مسیحا ثابت کرنا ہویا پھر شمشان اور قبرستان کا راگ الاپ کر ایک بڑے طبقے کو سیاست کے تحت الثریٰ میں دھکیلناہو۔اس سے بھی بڑھ کر سی اے اے اور این آرسی کا کھیل مسلمانوں کی قومیت پر حملے کے لئے کھیلا گیاتھاجس کا فائدہ براہ راست بی جے پی کوحاصل ہوا۔پاکستان کے خلاف سیاسی بیانیہ بھی ’پاکستان دشمنی ‘ میں ترتیب نہیں دیاگیابلکہ تقسیم کے مخالف مسلمانوں کو ’پاکستان دوست ‘ بتلاکر ان کی حب الوطنی کو مشکوک بناناتھا۔اس طرح فاشسٹ طاقتوں نے مسلمانوں پر ہندوستان کی زمین کو تنگ کرنے کے لئے مختلف حیلے اور حربے اختیار کئے ۔یہ سلسلہ عوامی مقامات پر اعلانیہ حملوں تک محدود نہیں رہابلکہ ان کے تشخص کو چھیننے کی بھی کوشش کی گئی۔زعفرانی سیاست کا یہ بیانیہ نریندر مودی کے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لئے ترتیب دیاگیاتھا۔اس طرح مودی نے خود کو’ بھگوان کا اوتار‘ ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان کے قلابے ملائے اور اندھ بھگت ان کے سیاسی گرداب میں پھنستے چلے گئے ۔نوبت یہاں تک پہونچی کہ اقتدار کی ہوس نے انہیں جمہوریت کو یرغمال بنانے کی طرف مائل کیا۔فاشسٹ طاقتوں نے ہندوستان کے تمام حکومتی اداروں میں اپنے افراد کو مقرر کرکے اقتدار کو ہڑپنے کا خطرناک کھیل ترتیب دیا۔اس کھیل میں مقامی افسران سے لے کر الیکشن کمیشن تک اور عدلیہ کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے نام نہاد منصف بھی شامل تھے۔مقامی افسران نے سیاسی سرپرستی میں پنپ رہی غنڈہ گردی سے نہ صرف چشم پوشی کی بلکہ انہیں نقض امن کا لائسنس بھی فراہم کیا۔الیکشن کمیشن نے فرضی رائے دہندگان تیارکئے تاکہ ’بھگوا پرچم ‘ کو جمہوریت کے ایوان پر نصب کرنے میں مدد کی جائے ۔عدلیہ میں زعفرانی نمائندوں نے ’آستھاکے نام پر ‘ بابری مسجد کا فیصلہ مندر کے حق میں سنادیااور ذیلی عدالتوں میں ایک کے بعد ایک مسلمانوں کے خلاف فیصلے صادر ہونے لگے ۔اس بیانیہ میں ہم نے پولیس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ پولیس تو بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے متعصب اور جانب دار ہوچکی تھی ۔اس کا ثبوت سینکڑوں بے گناہ مسلمانوں کا دہشت گردی جیسےسنگین مقدمات سے بری ہوکر جیلوں سے باہر آناہے ۔مختصر یہ کہ بی جے پی نے اقتدار پر مسلط رہنے کے لئے ہر وہ حربہ استعمال کیاجس نے نفرت کے فروغ کے ساتھ جمہوری اقدار پر بھی حملہ کیا۔یہی وجہ ہے کہ راج ناتھ سنگھ نےپارلیمنٹ میں آئین میں سیکولر لفظ کی تعریف کرتے ہوئے اس کو ’مذہب کی آزادی ‘ کے بجائے ’عقیدے کی آزادی‘ سے تعبیرکیاتھا۔اس کے بعد دھرم سنسدوں میں کس طرح مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیلیں کی گئیں اس کا مشاہدہ پوری دنیا نے کیا۔حتیٰ کہ مقتدر شخصیات نے بھی نفرت کی کاشت میں اپنا حصہ ڈالتے ہوئے ’دیش کے غداروں کو ،گولی ماروسالوں کو‘جیسے نعرے بلند کئے۔وزیر اعظم اسٹیج سے کہتے نظر آئے کہ ’فسادیوں کو ان کے کپڑوں سے پہچانا جاسکتاہے ‘ ۔ایسے اشتعال انگیز بیانات کےباوجود نہ تو پولیس نے ان کے خلاف کوئی مقدمہ درج کیااور نہ عدلیہ نے از خود کوئی نوٹس لیا۔نوبت یہاں تک پہونچی کہ جب حزب اختلاف کے لیڈر راہل گاندھی نے بی جے پی کی ’’ووٹ چوری ‘ کے حقائق منظر عام پر رکھے تو الیکشن کمیشن ان حقائق کی چھان پھٹک کرنے کےبجائے راہل گاندھی سےہی حلف نامہ کا مطالبہ کرنے لگا ۔گویا کہ پورا الیکشن کمیشن حکومت کے بچائو میں متحرک نظر آیا اور ایک بیان بھی ایساسامنے نہیں آیا جس میں یہ کہاگیاہو کہ حزب اختلاف کےالزامات کی تحقیق کی جائے گی ۔لہذا یہ کہاجاسکتاہے کہ جمہوریت کی یرغمالی میں الیکشن کمیشن نے بھی کلیدی کردار اداکیا کیونکہ اس کے اکثر افراد زعفرانی بھٹی سے نکلے ہوئے ہیں جن کی ذہنیت انوراگ ٹھاکر اور یوگی آدتیہ ناتھ سے مختلف نہیں ۔
’ووٹ چوری‘ کے خلاف راہل گاندھی ’ووٹر ادھیکار یاترا‘ پر نکلے ہیں ۔راہل نے عوامی بیداری کا یہ سفر بہار کے ضلع سہسرام سے شروع کیاجویکم ستمبر تک جاری رہے گا ۔راہل کے اس سفر نے سیاست میں طوفان برپاکردیاہے اور اقتدار کی کرسیاں متزلزل نظر آرہی ہیں ۔چونکہ بہار میں اسمبلی انتخابات سرپر ہیں ۔اس لئے اس سفر کو مل رہی عوامی حمایت نے نتیش کمار کے ساتھ بی جے پی کی نیندیں اڑادی ہیں ۔راہل گاندھی نے جس طرح ’’ووٹ چوری‘ کے حقائق منظر عام پر رکھے ہیں وہ انتہائی چونکانے والے ہیں ۔الیکشن کمیشن کی آنکھوں کے سامنے جمہوریت کو یرغمال بنایاجارہاتھا اور وہ خاموش تماشائی بناہواتھا۔بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ اس صورت حال کے لئے الیکشن کمیشن ہی ذمہ دار ہے تو بے جانہیں ہوگا۔کیونکہ گزشتہ پندرہ سالوں میں جب کہیں بھی ووٹوں کی گنتی میں بدعنوانی کی شکایت کی گئی تو الیکشن کمیشن نے خاطر خواہ نوٹس نہیں لیا۔چندی گڑھ مئیر کے الیکشن میں جس طرح ریٹرننگ افسرنے ووٹوں کی گنتی کے عمل کو متاثر کیااس پر الیکشن کمیشن کو سنجیدگی سے کارروائی کرتے ہوئے آئندہ کے لئے محتاط ہوجاناچاہیے تھا۔مگر ریٹرننگ افسرکی بدعنوانی پر الیکشن کمیشن کے بجائے سپریم کورٹ نے سخت رخ اختیار کرتے ہوئے دوبارہ گنتی کا فیصلہ سنایاجس کے بعدالیکشن کے نتائج بدل گئے۔ہریانہ اور اترپردیش کے لوک سبھا انتخابات میں بھی یہی صورت حال دیکھی گئی ۔کئی سیٹوں پر مقامی انتظامیہ کی جانب داری کھل کر سامنے آئی مگر ان افسروں کے خلاف الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی کاروائی نہیں ہوئی ۔اترپردیش میں تو کئی لوک سبھا حلقوں میں پولیس نے ڈنڈے اور بندوق کے زور پر ووٹ ڈلوائے یا ووٹرز کو رائے دہی سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ہر لوک سبھا الیکشن سے پہلے نریندر مودی اور امیت شاہ اعلانیہ اپنی جیت کا ڈنکا پیٹتے ہوئے ’اب کی بارتین سو پار‘ کا نعرہ دیتے رہے اور ہوابھی ان کے نعرے کے عین مطابق،اس سے ظاہر ہوتاہے کہ انہیں پہلے سے معلوم تھاکہ انہیں کتنی سیٹیں حاصل ہوں گی ۔امیت شاہ تو دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ اگلے چالیس پچاس سالوں تک بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل نہیں کیاجاسکے گا،ان کا یہ دعویٰ الیکشن کمیشن پر اعتماد کی بناپر تھا۔بی جے پی نے جس طرح ووٹرلسٹ میں ہیراپھیری کی اور پھر ای وی ایم میں گڑبڑی کی شکایتوں کے ساتھ ووٹوں کی گنتی کے عمل کو متاثر کرنے میں مقامی انتظامیہ نے ان کی حمایت کی ،اس سے تو ’چار سو پار ‘ کا نعرہ بھی درست ہوتادکھائی دے رہاتھامگر بی جے پی کواس لوک سبھا انتخابات میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہوسکی جس بناپر بادل نخواستہ نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو کی حمایت حاصل کرکے حکومت تشکیل دی گئی ۔اگر راہل گاندھی الیکشن کمیشن کی عدم شفاف کارکردگی پر سوال نہ اٹھاتے تو عوامی حمایت کے فقدان کے باوجود آئندہ اکثر اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو فتح حاصل ہوتی ۔خاص طورپر بنگال میں کہ جہاں ممتابنرجی کی سیکولر روایت سے سنگھ اور بی جے پی کو بڑی تکلیف ہے ۔بنگال میں ان کی پوری کوشش یہی ہے کہ کسی بھی طرح ممتابنرجی کا تختہ پلٹ دیاجائے ۔یہ کام الیکشن کمیشن اور ای وی ایم کی مدد کےبغیر نہیں ہوسکتاتھا،مگر اب ’’ووٹ چوری‘ ‘ کے حقائق منصہ شہود پر آنے کے بعد یہ کام آسان نہیں ہوگا۔
سوال یہ نہیں ہے کہ ’’ووٹ چوری ‘‘ پرراہل گاندھی کے دعوے حقیقت پر مبنی ہیں یا نہیں ۔سوال یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے اپنے وقار اور اعتماد کے تحفظ کے لئے کونسا طریق کار اختیار کیا۔پریس کانفرنس میں چیف الیکشن کمشنر راہل گاندھی کے الزامات کو غلط ثابت کرتے رہے جبکہ انہیں چاہیے تھاکہ وہ ان الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے جانچ کا اعلان کرتے ۔کیونکہ ’’ووٹ چوری ‘ کا معاملہ دراصل جمہوریت کو یرغمال بنانے کی کوششوں سے جڑاہواتھا ،جس پر انہیں سخت اقدامات کا اعلان کرناچاہیے تھامگر ایسا نہیں ہوا۔پریس کانفرنس میں صحافیوں کے سوالات کے جواب نہ دے کرچیف الیکشن کمشنر نے اپنی عاجزی کا واضح اعلان کردیا،جس سے یہ ظاہر ہورہاتھاکہ ان پر سیاسی دبائو ہے ۔جمہوری ملک میں الیکشن کمیشن کا سیاسی دبائو میں ہوناکبھی جمہوریت کی تقویت کا سبب نہیں بن سکتا ۔ایسی نازک صورتحال میں جمہوریت کی بقا اورآئین کے تحفظ کےلئے راہل گاندھی جیسے دلیر رہنمائوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔یقیناً راہل نے ہندوستان کی سیاست میں ہلچل پیداکردی ہے ۔اب دیکھنایہ ہے کہ یہ ہلچل کسی بڑی تحریک میں تبدیل ہوتی ہے یا نہیں کیونکہ عوامی تحریک کے بغیر اقتدار کی تبدیلی ممکن نہیں ہے !