-
راہل کے الزامات پر الیکشن کمیشن کی خاموشی
- سیاسی
- گھر
راہل کے الزامات پر الیکشن کمیشن کی خاموشی
197
M.U.H
22/09/2025
0
0
تحریر: سراوستی داس گپتا
الیکشن کمیشن آف انڈیا اب ایسا لگتا ہے کہ پوری طرح شک کے دائرہ میں آگیا ہے اور جب سے قائد اپوزیشن راہول گاندھی نے اس پر بی جے پی کے ساتھ سازباز اور ووٹ چوری کے الزامات عائد کئے تب سے الیکشن کمیشن آف انڈیا پریشان سا ہوگیا ہے۔ وہ راہول گاندھی اور کانگریس کے بشمول اپوزیشن جماعتوں کے اٹھائے جارہے سوالات کے جواب دینے کی بجائے خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ اب تو چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے دیگر الیکشن کمشنران اور الیکشن کمیشن کے عہدہ داروں کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کیا لیکن دیانت دار صحافیوں نے جو سوالات کئے، اس کے جواب دینے سے قاصر رہے۔ گیانیش کمار نے اپنے رفقاء کے ساتھ ایک گھنٹے سے زائد وقت تک پریس کانفرنس سے خطاب کیا لیکن جب بھی ان سے اہم سوالات کئے گئے ان پر خاموشی اختیار کی، ان سوالات کا کوئی جواب نہیں دیا۔ مثال کے طور پر انہوں نے راہول گاندھی سے حلف نامہ داخل کرنے اور معذرت خواہی کا مطالبہ کیا لیکن راہول گاندھی کی طرح ووٹ چوری کا الزام عائد کرنے والے بی جے پی ایم پی انوراگ ٹھاکر سے نہ تو حلف نامہ پیش کرنے کا مطالبہ کیا اور نہ ہی معذرت خواہی کی مانگ کی۔ ایسا کیوں کیا گیا، اس سوال کا گیانیش کمار کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ گیانیش کمار جنہوں نے پریس کانفرنس میں ایک سیاست داں کی طرح راہول گاندھی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں دیا کہ بہار میں ایس آئی آر کے نام پر کتنے فارمس مطلوبہ دستاویزات کے ساتھ جمع کروائے گئے اور اس مشق (ایس آئی آر) کے دوران ریاست میں رائے دہندوں کی شکل میں کتنی تعداد میں غیرقانونی تارکین وطن پائے گئے۔ اس سوال کا بھی انہوں نے کوئی جواب دینے سے گریز کیا کہ آیا ایس آئی آر دراصل بہار جیسی ریاست میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (NRC) نافذ کرنے کی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ گیانیش کمار کے پاس اس سوال کا بھی کوئی جواب نہیں تھا کہ اسمبلی انتخابات سے عین قبل ایس آئی آر کس وجہ سے کرایا جارہا ہے اور وہ بھی ایسے وقت جبکہ ریاست میں بارش و سیلاب کا موسم ہے۔ انہوں نے مذکورہ سوال پر مبہم سا جواب کچھ اس طرح دیا کہ ریاست بہار میں ایس آئی آر سال 2003ء میں بھی کیا گیا تاہم انہوں نے اس امر کا کوئی حوالہ نہیں دیا کہ اُس وقت اسمبلی انتخابات اکٹوبر 2005ء تک منعقد ہونے والے نہیں تھے۔ اگر گیانیش کمار کی پریس کانفرنس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بیان بازی سے بھری ہوتی تھی۔ انہوں نے بڑی ہٹ دھرمی سے یہ بھی کہا کہ فہرست رائے دہندگان میں ایک رائے دہندہ کا نام متعدد مرتبہ آنا ووٹ چوری کا ثبوت نہیں ہے اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس شخص نے ایک سے زیادہ ووٹ دیئے ہیں۔ گیانیش کمار کا اس طرح بات کرنا عجیب لگتا ہے۔ الیکشن کمیشن پر راہول گاندھی نے ووٹ چوری، جانبداری اور بی جے پی کے ساتھ سازباز کے جو الزامات عائد کئے گئے ہیں، ان میں کچھ نہ کچھ صداقت نظر آتی ہے کیونکہ انہوں نے ووٹ چوری کے الزام کے معاملے میں راہول گاندھی سے حلف نامہ طلب کیا لیکن بی جے پی رکن پارلیمنٹ انوراگ ٹھاکر سے حلف نامہ طلب کرنے کی زحمت نہیں کی۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایک لاکھ دیڑھ لاکھ رائے دہندوں کے خلاف الزامات عائد کئے جاتے ہیں تو بناء کسی ثبوت اور حلف نامہ کے انہیں نوٹس کیسے بھیجی جائے؟ کیا یہ قانونی طور پر جائز ہوگا۔ کیا ہم ان دیڑھ لاکھ ووٹروں کو سب ڈیویژنل مجسٹریٹ کے دفتر طلب کرکے بتائیں کہ آپ لوگ فرضی یا نقلی رائے دہندے ہو؟ بغیر کسی ثبوت کے حقیقی رائے دہندوں کے نام حذف نہیں کئے جائیں گے؟ چیف الیکشن کمشنران کے دلائل پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس نے بہار میں ایس آئی آر کے نام پر 65 لاکھ سے زائد رائے دہندوں کے جو نام حذف کئے ہیں، کیا وہ حقیقی رائے دہندے نہیں تھے (الیکشن کمشنر نے جن رائے دہندوں کے بارے میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ مرچکے ہیں، اس لئے ان کے نام حذف کئے گئے۔ راہول گاندھی نے ان میں سے چند متوفی رائے دہندوں کے ساتھ چائے نوشی کی) گیانیش کمار نے یہ بھی واضح کردیا کہ وہ کسی بھی ووٹر کے خلاف کارروائی نہیں کریں جس کے بارے میں الزام عائد کیا گیا کہ اس نے دو مرتبہ ووٹ ڈالے ہیں۔ گیانیش کمار نے قائد اپوزیشن راہول گاندھی کا نام لئے بناء حلف نامہ طلب کیا اور رجسٹریشن آف الیکٹورل رولز 1960ء کے قاعدہ 20(3) (بی) پر زور دیا۔ آپ کو بتادیں کہ الیکشن کمیشن نے ذرائع ابلاغ کے کچھ اداروں کو ذرائع کے حوالے سے بتایا تھا کہ فہرست رائے دہندگان میں بنگلہ دیش، نیپال اور میانمار کے غیرقانونی تارکین وطن کے نام پائے گئے ہیں لیکن پریس کانفرنس میں اس تعلق سے پوچھے گئے سوال کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا بلکہ یہ کہا کہ تمام رائے دہندوں کی تصدیق 30 ستمبر تک ہوجائے گی۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مکان نمبر صفر کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا بھی چیف الیکشن کمشنر کوئی اطمینان بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔