سنبھل: مسجد احاطہ واقع متنازعہ کنواں سے متعلق سپریم کورٹ نے مسجد کمیٹی سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کیا
16
M.U.H
30/04/2025
سنبھل شاہی جامع مسجد کے پاس موجود متنازعہ کنویں سے متعلق 29 اپریل کو سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ کنویں کے استعمال اور اس کے لوکیشن یعنی کہ کنواں مسجد کے احاطہ میں ہے یا نہیں، جیسے بنیادی سوالات پر سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران مسجد کمیٹی کے وکیل حذیفہ احمدی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کنویں کا استعمال مذہبی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس پر سی جے آئی نے پوچھا کہ کنویں میں پانی نہیں ہے تو اس کی کیا اہمیت ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے پوچھا کہ کنواں کہاں ہے؟ جواب میں حذیفہ احمدی نے کہا کہ کنواں مسجد احاطہ کے اندر ہے۔ حالانکہ یوپی حکومت کی جانب سے پیش ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کہا کہ کنواں مسجد کے احاطے سے باہر ہے۔
مسجد کمیٹی کے وکیل حذیفہ احمدی نے کہا کہ کنواں دراصل سیمنٹ سے بند ہے، اسے کبھی اوپر سے کھولا نہیں گیا ہے۔ مسجد کی جانب سے کنویں کے اندر سے ہی پانی نکالا جاتا ہے۔ اس پر سی جے آئی نے کہا کہ دوسروں کو بھی کنویں کا استعمال کرنے دیں۔ احمدی نے کہا کہ یہ مذہبی تقریبات کو انجام دینے کے بارے میں بھی ہے۔ اس پر اے ایس جی نے کہا کہ براہ کرم تصاویر دیکھیں، کنواں باہر ہے۔ ساتھ ہی سی جے آئی نے کہا کہ کنواں پولیس چوکی سے متصل ہے۔ ان مباحث کے درمیان سنبھل جامع مسجد کنواں سے متعلق سپریم کورٹ نے مسجد کمیٹی سے 2 ہفتوں میں جواب طلب کیا ہے۔ حذیفہ احمدی نے سماعت کے دوران یہ بھی کہا کہ مسجد کے چیئرمین کو جیل بھیج دیا گیا ہے۔ اس پر سی جے نے کہا کہ ٹھیک ہے، ان سے ملاقات کر جواب داخل کریں۔
واضح ہو کہ اس سے قبل سنبھل میں شاہی جامع مسجد کے قریب کنویں کو ہری مندر کا کنواں کہنے والے میونسپلٹی کے نوٹیفکیشن پر سپریم کورٹ نے روک لگا دی تھی، حالانکہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کنواں عوامی جگہ پر ہے اور کوئی بھی اس کا استعمال کر سکتا ہے۔ یوپی حکومت نے بھی سپریم کورٹ میں اسٹیٹس رپورٹ داخل کی تھی۔ اسٹیٹس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سنبھل جامع مسجد میں جو کنواں ہے وہ عوامی زمین پر ہے۔ حکومت نے مسجد کمیٹی پر غلط تصاویر پیش کر کے عدالت کو گمراہ کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا تھا۔