وقف ترمیمی قانون کے خلاف ملک گیر 'بتی گل' احتجاج، 15 منٹ لائٹیں بند کر کے مخالفت کا اظہار
9
M.U.H
01/05/2025
نئی دہلی: ملک بھر میں وقف ترمیمی قانون 2025 کے خلاف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (اے آئی ایم پی ایل بی) کی اپیل پر گزشتہ دب (30 اپریل) کو رات 9 بجے سے 9:15 بجے تک 15 منٹ کا علامتی احتجاج کیا گیا، جس کے تحت لوگوں نے اپنے گھروں، دکانوں اور دفاتر کی لائٹیں بند رکھیں۔ اس پرامن احتجاج کو 'بتی گل تحریک' کا نام دیا گیا، جس کا مقصد حکومت کو یہ پیغام دینا تھا کہ مجوزہ قانون عوامی مفاد اور آئینی اقدار کے خلاف ہے۔
احتجاج میں دہلی، لکھنؤ، حیدرآباد، کولکاتا، پٹنہ، احمد آباد، ممبئی، بھوپال، بنگلورو اور دیگر کئی شہروں کے لوگوں نے شرکت کی۔ کئی مساجد، مدارس اور سماجی تنظیموں نے بھی اس علامتی احتجاج کی حمایت کی۔
حیدرآباد میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے بھی اس احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے اپنے گھر کی لائٹیں بند کیں۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ اس احتجاج میں شامل ہو کر وزیر اعظم نریندر مودی کو یہ پیغام دیں کہ یہ قانون بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
لکھنؤ میں امام عیدگاہ مولانا خالد رشید فرنگی محلی نے بھی عوام سے اپیل کی کہ وہ 15 منٹ کے لیے لائٹیں بند کر کے وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کریں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ بل واپس نہیں لیا جاتا، مختلف شہروں میں مختلف طریقوں سے احتجاج جاری رہے گا ۔
احتجاج کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اسے عوامی سطح پر کامیاب قرار دیا اور کہا کہ یہ احتجاج صرف آغاز ہے۔ بورڈ کی جانب سے آئندہ کے لیے ایک احتجاجی شیڈول بھی جاری کیا گیا ہے، جس کے مطابق یکم جون کو حیدرآباد میں ایک بڑا دھرنا مظاہرہ منعقد کیا جائے گا، جبکہ مئی کے وسط میں انسانی زنجیر، گول میز کانفرنس اور خواتین کے اجتماعات بھی منعقد کیے جائیں گے۔
اس احتجاج کی خاص بات یہ رہی کہ کسی قسم کی بدنظمی یا قانون شکنی کی اطلاع نہیں ملی۔ یہ احتجاج مکمل طور پر پرامن، علامتی اور منظم انداز میں کیا گیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوامی بیداری میں اضافہ ہو رہا ہے۔
یاد رہے کہ حالیہ دنوں میں پارلیمنٹ سے منظور ہونے والے وقف ترمیمی قانون کو لے کر ملک بھر میں تشویش پائی جا رہی ہے۔ مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ قانون وقف جائیدادوں پر حکومتی مداخلت کو قانونی جواز دیتا ہے، جو آئین کے تحت دیے گئے مذہبی اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔