کا ئنات میں سب سے عظیم قربانی کربلا کی قربانی ہے تو سب سے زیادہ اہمیت اس قربانی کو زندہ رکھنے کی تدبیروں کی ہوگی واقعہ کر بلا کی یاد کو باقی رکھنے میں خطباء و شعراء کے علاوہ اجتماعی صورت میں جس جماعت نے سب سے اہم کردار ادا کیا ہے وہ ماتمی انجمنیں ہیں لہذا ان کی اہمیت بھی سب سے منفرد ہے۔
عام طور پر انجمنوں اور ان کی کار کردگی کو نشانہ بنا کر ان پر طرح طرح کے تبصرہ ہوتے ہیں جس سے اس مستحسن جماعت کے تئیں بد گمانی پھیلنے کے امکانات پیدا ہوتے ہیں حقیقت میں ماتمی انجمنیں جذبہ حسینیت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا وہ سمندر ہیں جس کی جولانی اور اس کے عزم و حوصلہ کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسوں آجاتے ہیں کہ کل صحرائے کربلا میں تنھا امام حسین کا ساتھ دینے والا کوئی نہیں تھا اور آج ماشاء اللہ بوڑھے جوان اور بچے اور خواتین سب مل کر جذ بہ حسینت سے سرشار لبیک یا حسین کا نعرہ لگا کر آواز دے رہے ہیں کاش ہم کربلا میں ہوتے حسینی عزم و حوصلہ سے بھرا یہ جوش و ولولہ حقیقت میں اپنی جانب سے کربلا کی بارگاہ میں ہر طرح کا خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے تیار ہے
اب ضرورت صرف اس جذبہ اور عزم و حوصلہ کو صحیح جہت دیگر حسینی تعلیمات کی طرف متوجہ کرنے کی ہے جس کے بعد ان کے نعرہ اور آہ و نالہ سب کے سب کربلا کے کردار میں ڈھلے نظر آئیں گے۔
جس کی تازہ مثال یزیدیت کے نمائندوں امریکہ اور اسرائیل کے مقابلہ میں ایرانی قوم کی بہادری اور بالا دستی میں دیکھی جاسکتی ہے
آج اگر ہم اپنی اس طاقت کو متحد کر کے اسے صحیح جہت دے سکیں تو یقین جانئے دنیا کی کوئی قوم دنیاوی یا دینی ترقیوں کے اعتبار سے عزاداران کر بلا کا مقابلہ نہیں کر سکے گی معمولی سے پانی کے بہاؤ کو اگر صحیح جہت مل جائے تو وہ لاکھوں گھروں کو روشنی عطا کر سکتا ہے تو جذبہ حسینیت کے آب گوارا کی عظیم طاقت کو بھی اگر حسینی تعلیمات کی صحیح جہت مل جائے تو یزیدیت دنیا میں کہیں سر اٹھانے کے لائق نہ رہ جائے البتہ اس گفتگو سے کسی بھی طرح یہ شبہ نہ ہو کہ معاذ اللہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جذ بہ عزاء کا یہ عظیم طوفان خدا نخواستہ غلط جہت میں جا رہا ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ایسا ہر گز نہیں ہے یہ خود جوش اور عظیم جذبہ چودہ سو برس سے حسینیت کے تئیں جس انداز میں خراج عقیدت پیش کر رہا ہے اس جذبہ کو لاکھوں سلام اور آج تک اس عظیم جذ بہ کا باقی رہنا اس طریقہ عزا اور عظیم عزم وحوصلہ کا سب سے بڑا فائدہ ہے۔
لیکن آج کی ترقی یافتہ دنیا میں دینی اور دنیاوی ترقی کے اعتبار سے حسینی جیالوں کو جہاں ہونا چاہیئے اس عزاء کے عظیم جذبہ میں اتنادم ہے کہ وہ عزاداروں کو ترقی کی اس منزل تک پہونچا سکے۔
مگر افسوس تب ہوتا ہے جب ہم یاد کر بلا کی اس بزم عظیم کو دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی کہتے ہوئے بھی علمی اعتبار سے اپنے کو دنیا سے پیچھے دیکھتے ہیں اور پھر نام نہاد تعلیم یافتہ افراد یزیدی افکار و نظریات کے ساتھ ہمارا منھ چڑھاتے ہیں اور ہمارا جوان اس عظیم رہبر انسانیت سے وابستہ ہو کر بھی دنیاوی ترقیوں اور دینی معاملات میں بعض اوقات یزید صفت اسرائیلیوں اور ان کے پیروکار وہابیوں کے مقابلہ میں بعض پہلؤوں کے اعتبار سے اپنے کو کمزور محسوس کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور مزید افسوس تب ہوتا ہے جب بعض اوقات اسے اپنی کمزوری کی طرف متوجہ ہوئے بغیر اپنی دینی اور دنیاوی پسماندگی پر مطمئن دیکھا جاتاہے جبکہ دشمنان دین ظاہری طور پر ہی سہی دنیاوی معاملات کے علاوہ دینی معاملات میں بھی ہم آل محمد کے چاہنے والوں سے آگے نظر آجاتے ہیں اگر چہ اس کا جواب ہم دے سکتے ہیں کہ دینی معاملات میں محبت اہل بیت علیہم السلام کے بغیر آگے رہنا ان کو آخرت میں کوئی فائدہ ہر گز نہیں پہونچائے گا اور دنیاوی معاملات میں کے سلسلہ میں حسینیت کی راہ میں فقیری ہمارے لئے یزیدی تخت و تاج سے کہیں بہتر ہے۔
یقینا عزاداران امام حسین کے خاک قدم کا ایک ذرہ بھی اتنا روشن اور پر نور ہے کہ ساری دنیا کی ترقیاں اس کی چمک سے آنکھیں نہیں مل سکتیں۔
لیکن کبھی ہم نے سوچا کہ جب عزائے امام حسین نے ہمیں یہ عظمت عطا کی ہے تو اس کی وجہ سے ہماری ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہوا ہے ہمیں اپنی اس عظمت کو صرف بچا کر ہی نہیں رکھنا بلکہ حسینی تعلیمات کے ذریعہ اس میں نکھار بھی لانا ہے۔
لہذا ہماری کوشش ہو کہ ہماری ماتمی انجمنیں ایام عزا میں عزائے امام حسین کے فروغ اور اس کی بقا کی عظیم ذمہ داری انجام دینے کے ساتھ ساتھ حسینیت کے عملی پیغامات پر عمل درآمد کی راہیں ہموار کریں اس سلسلہ میں بہت سے امور قابل توجہ ہیں سردست صرف چند باتوں کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے جس سے ہمارے اس امنڈتے ہوئے جذبہ حسینیت اور ہمارے کربلائی عزم و حوصلہ کو صیح جہت دیکر اس عظیم طاقت سے پہلے سے بھی زیادہ با عظمت فائدے اٹھائے جاسکتے ہیں
ا۔ ماتمی انجمنیں اپنے عمل عزاء کو صرف اور صرف عبادت سمجھ کر انجام دیں اور اسے رضائے پروردگار کے حصول کا ذریعہ قرار دیں۔
۲۔ اس سلسلہ میں رضائے پروردگار کا سبب بننے والے امور کی معرفت حاصل کریں اور یہ معرفت قرآن مجید و اقوال و ارشادات معصومین کی تعلیم کے بغیر حاصل ہونا مشکل ہے لہذا سب سے پہلے ضروری حد تک تعلیم دین و شریعت پر توجہ ہو۔
٣۔دینی تعلیم کے لئے قرآن مجید اور اقوال و ارشادات معصومین پر نظر ضروری ہے اس کے لئے ان علوم کی حامل شخصیات خاص طور پر علماء و مراجع کی اہمیت ، عظمت، ضرورت اور ان سے وابستگی کو سمجھنا ضروری ہے۔
مذکورہ مقاصد کے حصول کے لئے ایسی تعلیم گاہیں کھولی جائیں یا کھولی ہوئی تعلیم گاہوں کو تقویت دے کر انھیں فعال بنایا جائے جن میں خالص اسلامی تعلیم و تربیت کا معتبر بند و بست ہو۔
۴۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پر پوری توجہ دی جائے اور آج کی مہنگی تعلیم کے دور میں فرزندان قوم کی اعلی تعلیم کے بہتر انتظامات کی تدبیر کی جائے جس سے مالی اعتبار سے کمزور افراد بھی تعلیم کے میدان میں دوسری قوموں سے پیچھے نہ رہ سکیں۔
۵۔ عصری تعلیم میں قوم کے حالات کی بہتری کے لئے تدبیر کریں قوم کے صاحبان حیثیت افراد کو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم کی طرف متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ اپنی حیثیت بھر نادار افراد کی اعلی تعلیم کا انتظام بھی کریں۔
٦۔ اگر ممکن ہو تو صاحبان خیر افراد کے تعاون سے اعلی تعلیم کے لئے ہر سطح پر اسکول اور کالج قائم کئے جائیں جہاں تمام ضرورت مندوں کو بہتر تعلیم دی جائے اور مہنگی تعلیم دینے والوں کو آئینہ دکھایا
جاسکے۔
٧۔ اگر اسکول اور کالج کا انتظام ممکن نہ ہو تو کم از کم اعلی سطح کی کو چنگ کے انتظام کئے جائیں جن سے اچھے اسکولوں تک رسائی حاصل نہ کر سکنے والوں کو بہتر تعلیم دے کر مقابلہ جاتی امتحانوں میں شریک کیا جا سکے اور پھر ہماری قوم میں اعلی سطح کے ڈاکٹر اور انجینئر جیسے تعلیم یافتہ افراد کی کمی نہ رہ جائے۔
٨۔ ابتدائی تعلیم کے لئے ہر گروپ کی سطح پر چھوٹے بچوں کے لئے ایسے مراکز قائم کئے جائیں جہاں بچوں کے پاکیزہ ذہنوں میں ترقی یافتہ ثقافت اور تعلیم کے ساتھ اسلامی اور انسانی اخلاق واقدار کو بٹھایا جاسکے اور پھر ذہنی طور پر مضبوط ہو کر (play group) سے فارغ ہونے کے بعد اچھے اسکولوں میں داخلہ لے سکیں ۔
٩- تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور حقوق کی ادائیگی پر خاص توجہ رکھی جائے تربیت کے پہلو کو ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ تربیت کے لئے ورکشاپ، کیمپ وغیرہ کا انتظام کیا جائے تا کہ ایسے مواقع پر عملی تعلیمات پر توجہ کی جاسکے۔
۱۰۔ مختلف سماجی ، قومی اور مذہبی مناسبتوں پر شایان شان پروگرام رکھ کر تربیت کا عملی انتظام کیا جائے معصومین علیہم السلام کی ولادت اور شہادت کے موقع پر ان ذوات مقدسہ کے اقوال و ارشادات پر مشتمل کوئز اور نشتیں رکھ کر معصومین علیھم السلام کی عظیم تعلیمات کو جوانوں تک پہونچایا جایے۔
١١۔ سماج کے بے روز گار افراد کے لئے جس حد تک ممکن ہو روزگار فراہمی کا انتظام کیا جائے اس کے لئے افراد قوم سے ماہانہ یا سالانہ بجٹ اکھٹا کر کے صندوق قرضہ الحسنہ قائم کیے جائیں تا کہ افراد قوم کو روزگار کے لئے آسان قسطوں پر قرض فراہم کیا جاسکے
۱۲ ۔ قوم کے نادار گھرانوں میں مریضوں کے علاج کے لئے وسائل فراہم کرنا انہیں صحیح مشورہ دینا امکانی صورت میں حکومتی اسکیموں کے تحت بیمہ وغیرہ کرانے کی رہنمائی کرنا تا کہ ان مراحل سے با آسانی عهده برآ ہوا جا سکے۔
۱۳ - گھریلو اختلافات ختم کرنے کے لئے ارباب حل و عقد کے ذریعہ قدم اٹھانے کی تشویق کرنا اور ہرعلاقہ میں قوم کے بزرگوں اور وہاں موجود علماء کرام کے ذریعہ ان اختلافات کو ختم کرنے کی تدبیر کرنا۔
۱۴ - حقدار کے حق کو محفوظ رکھنا نا حق کسی کا ساتھ نہ دینا کسی کی حق تلفی نہ ہونے دینا۔
۱۵۔ قومی معاملات کو قوم ہی کے درمیان حل کرنا بلا وجہ عدالتی اور حکومتی ذمہ داروں کو پریشان کر کے اپنا اور ان کا وقت تلف کرنے سے پر ہیز کرنا۔
۱۶۔ قوم و سماج کے درمیان شادی بیاہ کو آسان بنانے کے امکانات پر غور کرنا اور ہر علاقہ میں رسم و رواج کی زنجیریں توڑ کر اسے آسان بنانا۔
۱۷۔ شادی کے بعد نئی زندگیوں میں متوقع مشکلات دور کرنے کے لئے مذہبی اور نفسیاتی مشورہ کے لئے مراکز کا قیام کرنا تا کہ گھریلو جھگڑوں سے زندگیاں تباہ نہ ہوں ۔
۱۸۔ خواتین کی تعلیم کا خاص انتظام کرنا تعلیم یافتہ خاتون کسی بھی خاندان کا وہ عظیم ستون ہے جو پورے خاندان کی عمارت کو گرنے سے بچا سکتی ہے۔
۱۹۔ خواتین کے لئے مختلف سطح پر دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا جس سے ہر سطح کی خواتین کچھ نہ کچھ حاصل کر سکیں ۔
۲۰۔ کسی بھی حادثاتی کیفیت کے وقت سماج اور ملک وملت کے لئے امدادی خدمات کے لئے تیار رہنا۔
۲۱۔ جسمانی صحت و سلامتی کے ساتھ ساتھ در پیش مشکلات یا معاندانہ حملوں کی صورت میں دفاع کے لئے تیار رہنا اس کے لئے ضروری ورزش اور دفاعی فنون سے آگاہی اور مشق جاری رکھنے کے امکانات فراہم کرنا۔
۲۲۔ جائز اور مفید کھیلوں اور مسابقوں کے لئے جوانوں اور نو جوانوں میں آمادگی پیدا کرنا۔
۲۳ - عام افراد قوم اور معاشرہ کے ساتھ ہمدردی انس و محبت اور مدد کا جذبہ پیدا کرنا۔
۲۴۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ سماجی انتظام اور فلاحی امور میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے لئے تمام عزادان حسینی کا سرگرم رہنا اور اس کے امکانات فراہم کرنا۔
٢٥-اموات سے متعلق امور میں صاحبان غم کےلئے تسلی کا سامان فراہم کرنے ساتھ ساتھ تجہیز وتکفین اور تدفین کے علاوہ ایصال ثواب سے متعلق پروگراموں کو آسان بنانا۔
۲۶۔ حتی الامکان کسی بھی قوم وملت کے دکھ درد میں شریک رہنا اور ضرورت پڑنے پر انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر ممکن خدمت انجام دینا۔
۲۷۔ جسم ، لباس، گھر، دروازہ اور گلی کوچہ کے ساتھ ساتھ محلوں اور راستوں کی صفائی ستھرائی کی بہتری کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانا اس سلسلہ میں انتظامیہ کو متوجہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی مدد کرنا۔
۲۸ ۔ ملک وقوم کے ماحول کو پر امن رکھنے کے لئے دامے، درمے ، قدمے، سخنے کسی طرح کی بھی کوئی
خدمت کرنا۔
۲۹۔ کسی بھی معاشرہ میں فتنہ و فساد پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ بنا اور اسے جلد از جلد خاموش کرنا۔
۳۰ مختلف مواقع پر بے جارسم و رواج پر پابندی لگا کر قومی مشکلات کا حل تلاش کرنا۔
غرض که حسینی عزم و حوصلہ کی اس عظیم طاقت کو حسینی تعلیمات کی روشنی میں اس کی صحیح جہت دیگر کربلا کے انقلاب کی جھلک پیش کرنا سچے عزادان حسینی اور انجمن ہائے ماتمی کی عظیم ذمہ داری ہے کسی بھی طاقت کو پراکندگی اور بکھراؤ سے بچا کر منصوبہ بند طریقہ سے استعمال کرنا اس میں نئی روح پھونکنے کا بہترین طریقہ ہے۔
اس طرح کے افکار و اقدامات کے بعد ہماری مجلسوں ہمارے جلوسوں ہمارے ماتمی دستہ جات ہماری نوحہ خوانی اور مرثیہ خوانی کی رونق دوبالا ہو جائے گی اور ہم کسی کا دل دکھانے کے بجائے حسینی کردار کے ساتھ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک دکھائی دیں گے۔
پھر ہماری مجلسیں پیغام رسانی کا ذریعہ ہوں گی ایذا رسانی کا نہیں ، ہمارے جلوس مظلومیت کی داستان رقم کریں گے مزاحمت نہیں ، ہمارے نوحوں میں سوز حسینی اور ساز کر بلائی ہو گا پست دنیا وی موسیقی کی کیفیت نہیں، ہمارے مرثیے غم آل محمد کی کیفیت کو نظروں کے سامنے زندہ کرنے کا ذریعہ ہوں گے مجلس سے پہلے ٹائم پاس کرنے کا ذریعہ نہیں۔
اس طرح ہماری پوری عزا مقصد کر بلا کو سامنے رکھ کر سچے عزادار اور سچے حسینی کا کردار پیش کرے گی۔ البتہ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ موجودہ کیفیت کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے بلکہ ان موضوعات پر غور کرنا اور ان کو عمل میں لانا اس لئے ضروری ہے کہ ہر بہتر کام کے لئے بہتر سے بہتر کی کیفیت کی طرف بڑھنا ضروری ہوتا ہے چاہے وہ کام بظاہر دنیاوی ہوں یا عبادت کی صورت میں انجام پاتے ہوں نماز و روزہ ، حج وزکاۃ خمس و جہا د سب میں بہتر سے بہتر کی تدبیر کر نا رضائے پروردگار کا ذریعہ ہے تو عزائے امام حسین کی عظیم عبادت میں ایسا کیوں نہ سوچا اور کیا جائے۔
خداوند عالم ہمارے مدارس، مساجد ، عزا خانوں، مجلسوں، جلوسوں ، مراسم عزاء اور اسی طرح ہماری محفلوں ہمارے مذہبی تہواروں میں قرب پروردگار کی مہک اور حسینی کی کردار کی جھلک پیدا کر دے۔ اور ہماری انجمن ہائے ماتمی کی ان مختصر جماعتوں کو نصرت امام زمانہ کی عظیم خدمت کے لئے منتخب فرمائے۔