امام حسین ؑسے پوچھا گیا کہ آپ کیوں خدا سے اس قدر خوفزدہ ہیں تو آپ نے فرمایا: قیامت کی سخت منزلوں سے کسی کو امان نہیںہے سوائے اس شخص کے جو خدا سے ڈرتا ہو۔
(بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۲، و من زہذہؑ انہ قیل لہ: ما اعظم خوفک من ربک؟ قال: لایأمن یوم القیامہ الا من خاف اللّٰہ فی الدنیا۔)
عبد اللہ ابن عبید کا بیان ہے: امام حسین ؑنے ۲۵ حج پیدل کئے جب کہ آپ کے پاس سواری کا جانور موجود تھا۔
(بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۳، قال عبد اللّٰہ بن عبید لقد حج الحسین بن علی خمسۃ و عشرین حجۃ ماشیاً و ان النجائب لتقاد معہ۔)
امام زین العابدین ؑسے عرض کیا گیا کیوں آپ کے بابا کے فرزندوں کی تعداد اتنی کم ہے تو آپ نے فرمایا: مجھے ان کے ذریعہ خود اپنی ولادت پر تعجب ہے اس لئے کہ وہ ہر روز رات و دن میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ (بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۶، قیل لعلی بن الحسن : ما اقل ولد ابیک؟ فقال: العجب کیف ولدت؟ کان یصلی فی الیوم و اللیلۃ الف رکعۃ)
راوی کا بیان ہے کہ میں نے حسن و حسین کو دیکھا کہ آپ حج کے لئے پیدل تشریف لے جا رہے ہیں جو سوار ان کے پاس سے نکلتا ہے اپنی سواری سے اتر جاتا ہے اور ان کے ساتھ پیدل چلنے لگتا ہے ان میں سے بعض کے لئے پیدل چلنا مشکل تھا انھوں نے سعد ابن ابی وقاص سے کہا ہمارے لئے پیدل چلنا مشکل ہے لیکن اچھا نہیں لگتا کہ یہ دونوں بزرگ سید پیدل چلیں اور ہم سوار ہوکر چلیں ۔ سعد نے یہ بات امام حسن ؑتک پہونچادی اور عرض کیا کہ کاش آپ لوگ ایسے لوگوں کی حالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سواری پر سوار ہو جاتے امام حسین ؑنے جواب دیا کہ ہم سوار نہیں
ہوسکتے اس لئے کہ ہم نے یہ عہد کیا ہے پیدل حج کریں گے لیکن دوسرے مسافروں کا خیال رکھتے ہوئے ہم اس راستہ سے الگ ہو جائیں گے یہ کہہ کے وہ دونوں حضرات اس راستہ سے دور ہوگئے۔
ابن عبدالبر اور ابن اثیر نے مصعب زبیری سے روایت کی ہے کہ:
"امام حسین (ع) نہایت بافضیلت اور دین سے مضبوطی سے وابستہ تھے۔ ان کی نماز، روزہ اور حج کی کثرت مشہور تھی۔"(اسد الغابہ ج ٢ص٢٠ الاستیعاب )ج١ص٣٧٨
عبداللہ بن زبیر نے ان کی عبادت کے بارے میں کہا:
"امام حسین (ع) رات کو عبادت میں بیدار رہتے اور دن کو روزے سے ہوتے
عبادت اور خشوع
مشہور مصنف عباس محمود العقاد لکھتے ہیں:
"امام حسین (ع) صرف پنج وقتہ نمازوں کی پابندی نہیں کرتے تھے، بلکہ اضافی نوافل بھی ادا کرتے۔ ماہِ رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں بھی روزے رکھتے اور ہر سال حج کی ادائیگی کرتے، سوائے اس کے کہ کسی مجبوری کے سبب نہ جا سکے۔" (ابو الشہداءص٧٣)
آپ ہر دن ہزار رکعت نماز ادا کرتے اور پچیس مرتبہ پیدل حج بیت اللہ کے لیے روانہ ہوئے۔ یہ تمام چیزیں امام حسین (ع) کی بندگی، خشوع اور خضوع کا واضح ثبوت ہیں۔(استیعاب ج١ص٣٨٢ أسد الغابہ ج٢ص٢٠منقول از آئینہ جمال ص ٢٣)
نماز اور قرآن
نہ محرم کوعصر کے وقت عمر سعد نے امام حسین علیہ السلام کے خیموں پر حملہ کرنے کا حکم دیا اور اس کا لشکر امام کے خیموں کی طرف بڑھنے لگا۔ امام حسین علیہ السلام خیمے کے باہر اپنی تلوار پر ٹیک لگائے ہوئے تھے اور ان کی آنکھوں پر ہلکی سی نیند طاری تھی۔ زینب کبری علیہا السلام نے جب عمر سعد کے لشکر کا شور سنا اور ان کی نقل وحرکت دیکھی، تو جلدی سے بھائی کے پاس آئیں اور عرض کیا: "اے بھائی! مجھے لگتا ہے کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے اور اب ہمارے خیموں کے قریب آ رہا ہے "۔
امام حسین علیہ السلام نے حضرت نے عباس علیہ السلام سے فرمایا: "بھائی! میری جان تم پر قربان، اپنے گھوڑے پر سوار ہو جاؤ اور ان لوگوں سے ملاقات کرو اور ان کے اس شور کا سبب پوچھو"۔ حضرت عباس علیہ السلام امام حسین کے کچھ ساتھیوں کے ساتھ عمر سعد کے لشکر کے سامنے کھڑے ہو گئے، جو جنگ کے لیے اپنی تلواروں کو تیز کر رہے تھے، اور ان سے اس نقل وحرکت کا سبب پوچھا۔ عمر سعد نے کہا: "ابن زیاد کی طرف سے حکم آیا ہے کہ فوراً یا تو بیعت لو یا جنگ کے لیے تیار ہو جاؤ"۔
جناب عباس علیہ السلام اپنے بھائی کے پاس واپس آئے اور ان کا جواب امام کو سنایا۔ امام نے فرمایا: "بھائی! ان کے پاس واپس جاؤ اور اگر تم کر سکو، تو آج رات کی مہلت مانگو اور جنگ کو کل کے لیے موخر کر دو تاکہ ہم آج رات نماز، استغفار اور اپنے رب سے مناجات میں گزار سکیں۔ خدا جانتا ہے کہ میں نماز اور قرآن پڑھنے، استغفار اور اس سے راز و نیاز کو پسند کرتا ہوں اور اس سے محبت کرتا ہوں"۔ جناب عباس علیہ السلام دوبارہ دشمن کے لشکر کے پاس گئے اور امام کا پیغام ان تک پہنچایا۔ یہ تجویز عمر سعد کے لشکر کے کمانڈروں کے سامنے رکھی گئی اور تھوڑی دیر گفتگو کے بعد، طے پایا کہ وہ اس رات امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو مہلت دیں گے۔
امام نے یہ رات اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز، دعا، تلاوت قرآن اور مناجات میں بسر کی۔ راوی کہتا ہے: "اس رات، عجیب سی نقل وحرکت اور غیر معمولی خوشی نظر آ رہی تھی۔ امام حسین علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں نے صبح تک نالہ و فریاد اور مناجات کی اور ان کی سرگوشیاں شہد کی مکھی کی آواز کی طرح سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ لوگ رکوع میں تھے، کچھ سجدے میں، کچھ کھڑے تھے اور کچھ بیٹھے ہوئے اپنے معبود سے دعا اور مناجات کر رہے تھے"۔لھوف سید ابن طاوس قم انتشارات انوار الہی ١٣٧٥ج ١ص٥٧)
یہ امام حسین علیہ السلام کا طریقہ تھا کہ اسی رات، جب عمر سعد کے لشکر کے کچھ لوگوں کا گزر امام حسین علیہ السلام کے خیموں اور ان کے ساتھیوں کے پاس سے ہوا اور انہیں اس طرح عبادت اور مناجات میں غرق دیکھا، تو وہ بھی امام کے ساتھ شامل ہو گئے۔ (بحار الا نوارج٤٤ص٣٩٤)
آخری نماز
عاشورکےدن ظہر کے وقت، امام حسین علیہ السلام کے ایک ساتھی ابوثمامہ صائدی نے امام سے عرض کیا: "یا ابا عبداللہ! نماز کا وقت ہو گیا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ زندگی میں آخری بار آپ کے ساتھ نماز پڑھیں"۔ حضرت نے ان کی طرف دیکھا اور تصدیق کی کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے۔
پھر ابوثمامہ سے فرمایا: "تم نے نماز کی یاد دلا دی، خدا تمہیں نماز پڑھنے والوں میں شمار کرے"۔
امام جنگ کے میدان میں، تیروں، نیزوں اور تلواروں کے درمیان، نماز کے لیے تیار ہو گئے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اپنے معبود سے راز ونیاز کرنے میں مصروف ہو گئے۔ یہ حسین کی آخری نماز تھی، امام حسین کی حالت ایک خاص حالت تھی؛ کیونکہ وہ اور ان کے ساتھی دشمن سے زیادہ دور نہیں تھے، اور دشمن کے ناجائز حملے سے محفوظ نہیں تھے، اور دشمن نے امام کے کچھ ساتھیوں کو، جو ان کے سامنے ڈھال بنے ہوئے تھے، تیروں اور نیزوں کا نشانہ بنایا اور ان میں سے کچھ کو خاک و خون میں غلطاں کردیا۔ [وقعۃالطف ص٣٢٩]
امامحسین انتہائی مشکل حالات میں بھی وقت پر نماز پڑھتے تھے تاکہ سب کو بتا سکیں کہ وہ دین کی حفاظت اور نماز قائم کرنے کے لیے لڑ رہے ہیں، نہ کہ اقتدار حاصل کرنے اور حکومت کرنے کے لیے۔ کیا امام حسین علیہ السلام کا قیام نماز اور خدا کے دیگر احکام کے لیے نہیں تھا؟ کیا یہ نہیں ہے کہ انہوں نے خدا کے احکام کو زندہ رکھنے کے لیے کربلا کی مٹی کو اپنے خون سے رنگین کر دیا اور تاریخ کے صفحات کو اپنی قربانیوں سے سجایا؟ اب یہ حسینیت کی راہ پر چلنے کے دعویدار حسینی پیرو کاروں کی ذمہ داری ہےکہ وہ اپنے کوامام حسین کے سیرت وکردار سے قریب کریں۔