اسلام بار بار تاکید کرتا ہے کہ گھروں اور خاندانوں میں شرم و حیا کا ایک پردہ لٹکتا ہوا نظر آئے اورمحرم ونامحرم کی آمیزش سے پرہیز ہو پردہ اور حجاب کی رعایت ہو۔
لڑکے ہوں یا لڑکیاں سن بلوغ کو پہنچ کر انہیں اپنی شخصیت کی پہچان رہے اور یہ ممکن نہیں مگر یہ کہ دونوں ہی پاک دامنی کی خوب اچھی طرح حفاظت کریں نامحرموں سے آشنا نہ ہو نے پائیں ہوس سے دوری اختیار کر یں اور نتیجہ میں یہی عفت و پاکدامنی حیاو شرم ایک دوشیزہ کی آئندہ زندگی کو نہایت شیریں اور خوش گوار بنادیتی ہے۔
جب وہ فطری جذبات سے لبریز شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے خاوند کی تلاش وجستجو میں گم سم ہوتی ہے مگر اپنی شخصیت اور عزت ووقارکے تحفظ کے لئے نامحرموں سے آشنائی کو پسند کرتی ہےنہ ہی کبھی کسی نامحرم سے جسمانی تعلقات کو جائز سمجھتی ہے ۔
تو ایسی ہی دوشیزہ جب بیاہ کر پہلی بار ایسے ہی پاک باز و پاک دامن شوہر کے گھر رخصت ہو کر جاتی ہے تو وہ اپنی ازدواجی زندگی سے بھرپورلطف اندوز ہوتی ہے اور وہ ان تمام لزتوں کو اپنے دامن میں اکٹھا کر لیتی ہے جس کی آرزو میں اس جیسی کنواریاں ہم سن وسال سہیلیاں ہوا کرتی ہیں۔
جبکہ ہوس پسند خواہشات میں بہہ جانے والے ایسی ہی نہ جانے کتنی جوان لڑکی اور لڑکے اپنی جوانی کی رعنائی داغ دارکرکے باطنی شکست سے دوچار ہو جاتے ہیں اور اس دنیا میں بھی زیادہ کچھ نہیں پاتے اور آخرت تو برباد کرتے ہی ہیں۔
غور طلب ہے
جب جنسی محرومیت کے بعد ایک قانون وضابطہ اخلاق کے دائرہ میں دو صنف مخالف مجتمع ہوتے ہیں اور رشتہ ازدواج سے منسلک ہوتے ہیں تو قدرت بھی بھرپور طریقے سے ان کی مدد کرتی ہےاور جوانی کی شرافت مندانہ لذتیں دوبالا ہوجاتی ہیں جو فطرت کے عین مطابق ہے ۔
کام جوئی کی حدیں
لہذا اسلام سن بلوغ میں قدم رکھتے ہی لڑکے اور لڑکی دونوں کے لئے جنسی کام جوئی کی حدیں متعین کرکےانہیں جنسی بے راہ روی و لاقانونیت سے بچاکر ان کےخانوادگی تحفظ کو قوت واستحکام عطا کرتا ہے۔
حالانکہ اس کے برخلاف جو دوشیزائیں یا جوان لڑکے جنسی روابط میں خود کوآزادچھوڑ دیتےہیں یعنی جوش جوانی میں آج اس کے ساتھ ہیں تو کل کسی اور کے ساتھ یہاں تکہ جنسی آزادی میں بے لگام ہوکر کسی سے بھی جنسی تعلقات قائم کرنے میں کوئی جھجھک محسوس نہیں کرتے ۔
تو یاد رکھیں یہی وہ لوگ ہیں جو نکاح وشادی کو اپنے لئے قید وبند خیال کرنے لگتے ہیں اور بوڑھاپے سے بے خبر ہوکر چار دن کی زندگی کو کل متاع زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں۔
چنانچہ ایسے ہی لوگ آئندہ زندگی میں بہت جلد ناکامی کا شکار ہو کر یاس وناامیدی کو اپنے گلے لگا لیتے ہیں ۔
کیونکہ شادی سے قبل وہ لاابالی پنے کی زندگی گزار کراپنی متاع زندگی برباد کر کےادھر آئے ہیں۔
لہذا اسلام میں پردہ اور حجاب کا دستور اور مومنات کے ساتھ ساتھ مومنین کو اپنی نگاہیں نیچی رکھنے کی تاکید اورنامحرموں سے جسمانی آمیزش کی ممانعت ایک ایسا دستور حکمت آمیز ہے جو جوان لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کو ایک کامیاب وکامران زندگی گزارنے کا راستہ دیکھاتا ہے اور انہیں ذہنی آسودگی عطا کرکے ان کے گھر کی چہار دیواری کو گہوارہ امن و سکون بنادیتا ہے ۔
جسے قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
تہزیب نو چیلنج بن چکی ہے
دورحاضر کی نام نہاد تہذیب نامحرموں کے خلط ملط کو ترقی کی علامت اور اسےعورتوں کے حقوق کی بازیابی قرار دیتی ہے جس کے مخرب اخلاق نتائج پوری انسانی برادری کے لئے بڑے چیلنج بن چکے ہیں۔
گھر ٹوٹ رہے ہیں زناشوئی کے آپسی تعلقات بہت پھیکے ہیں میاں بیوی کی عزت و حرمت داغدار ہے اور انسانی نسل کی بقا بربادی کے دہانے پر کھڑی ہوئی ہے دل کی دنیا ویران ہے جبکہ راہ حل ندارد ہے ؟؟
پردہ سکون لاتا ہے
حالانکہ اسلام نے اس کا راہ حل پیش کیا ہے جس سے دیندار گھرانے فائدہ اٹھاتے ہیں جبکہ ایک آزاد خیال غیر مذہبی طبقہ جنسی بے راہ روی کی وجہ سے اپنی متاع زندگی لٹاکرپھر کہیں کا نہیں رہتا ا؟ ۔