مولانا کلب جوادنقوی پر ہوئے شرپسندانہ حملے کے مجرموں کوجلد گرفتار کیاجائے :علماء
7
M.U.H
18/10/2025
لکھنؤ ۱۸ اکتوبر: مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری امام جمعہ مولانا سید کلب جواد نقوی پر وقف کربلا عباس باغ میں پولیس کی موجودگی کے باوجود شرپسندوں کے ذریعہ کئے گئے مبینہ حملے کی مذمت اور آئندہ کے لایحۂ عمل پر غوروخوض کے لئے علماء اور قوم کے دانشوروں کا ایک مشاورتی جلسہ منعقد ہواجس میں موجود سبھی شرکاء نے مولاناپر ہوئے حملے کی مذمت کرتے ہوئے اترپردیش سرکار سے مجرموں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔یہ جلسہ کربلا ملکہ جہاں واقع تحسین گنج لکھنؤ میںمنعقد ہوا۔علماء نے کہاکہ اس واقعہ کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے ۔قوم کے معزز افراد ،انجمن ہائی ماتمی اور سماجی و مذہبی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ سرکار کو میمورنڈم ارسال کرکے مجرموں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کریں ۔
جلسے کا آغاز قاری مولانا محمد مہدی نے تلاوت قرآن مجید سے کیا۔اس کے بعد مولانافیض عباس مشہدی کی نظامت میں پروگرام کی کاروائی کا آغاز ہوا۔مولانا تنویر عباس نے اپنی تقریر میں مولاناکلب جوادنقوی پر ہوئے حملے کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے علمائے کرام کا مشترکہ پیغام پڑھاجس میں لکھنؤ کے معروف علماء کے نام شامل تھے جن میں مولانا اختر عباس جون،مولانا مشاہد عالم رضوی ،مولانا سعیدالحسن نقوی،مولانا گلزار جعفری ،مولانا حسنین باقری،مولانا ثقلین باقری ،مولاناتصدیق حسین زید پوری،مولانا صابر علی عمرانی،وغیرہ ۔نوگانواں سے تشریف لائے جامعۃ المنتظر کے مدیر مولانا قرۃ العین مجتبیٰ نے اپنی تقریرمیں حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ کیاقوم اس انتظار میں ہے کہ مولانا زخمی ہوں تو ہم گھروں سے نکلیں گے ۔یہ حملہ تنہا مولانا کی ذات پر نہیں بلکہ قوم کے وقار پر تھا،اس لئے علمائے کرام اور قوم کے افراد کو چاہیے کہ وہ گھروں سے نکل کر احتجاج کریں تاکہ مجرموں کو گرفتارکیاجاسکے ۔
جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب کے سکریٹری حجۃ الاسلام مولانا صفی حیدر صاحب کا پیغام مولانا علی مہذب خرد نے پیش کیا۔مولانا صفی حیدر صاحب اپنی علالت کی بناپر پروگرام میں حاضر نہیں ہوسکے مگر ان کے ادارے سے ان کی نمائندگی میں علماء جلسے میں شریک رہے ۔مولانا صفی حیدر نے اپنے پیغام میں مولاناکلب جواد نقوی پر ہوئے حملے کو وقف دشمن عناصر اور فرقہ واریت پھیلانے والوں کی منظم سازش قراردیا۔انہوں نے کہاکہ مولاناکلب جواد نے قوم کے اندر بیداری اور مزاحمت کی روح کو زندہ رکھا اور وہ اپنی شجاعت وبےباکی کی بناپر دلوں کے قائد بنے ہیں ۔انہوں نے سرکار سے مجرموں کے خلاف سخت کاروائی کامطالبہ کرتے ہوئے علمائے کرام ،خطباء ،مذہبی و سماجی تنظیموں اور بیدار مغز قوم سے اپیل کی کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اس واقعے پر پُر امن مگر موثر احتجاج درج کریں تاکہ معزز عالم دین کو انصاف مل سکے ۔
مولانا محمد میاں عابدی قمی نے مولانا کلب جواد نقوی پر ہوئے شرپسندانہ حملے کو پوری قوم پر حملے سے تعبیر کرتے ہوئے کہاکہ علماء اور قوم کے معزز افراد کی ایک کمیٹی تشکیل دی جائے تاکہ ان کی نمائندگی میں آگے کا لایحۂ عمل ترتیب دیاجاسکے ۔انہوں نے کہاکہ اگر ابتدامیں ہم نے اس مسئلے کو حل نہیں کیاتوآئندہ نتائج بہت خطرناک ہوں گے اور کل کسی پر بھی حملہ ہوسکتاہے ۔انہوں نے مزید کہاکہ علمائے کرام عوام تک اس حملے کی حقیقت کو پہونچائیں اور عوام کو بیدار کیاجائے تاکہ عوامی تحریک شروع ہوسکے ۔مولانا نے کہاکہ ہمیں حکومت کو اس واقعہ کی حساسیت کی طرف متوجہ کرناچاہیے اور ایک وفد کو وزیر اعلیٰ کے پاس جاناچاہیے تاکہ مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کیاجاسکے ۔انہوں نے کہاکہ یہ حملہ ہماےملک کی ساکھ پر ہواہے اور حملہ ور ہمارے ملک کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا چاہتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ پولیس حملہ وروں کے ساتھ ملی ہوئی تھی ۔سوچئے آج اترپردیش میں پولیس راج قائم ہے مگر جو غنڈے پولیس کی موجودگی میں حملہ کررہے ہیں وہ کتنے بڑے غنڈے ہوں گے ،یوگی سرکار کو ان کے خلاف ایکشن لیناچاہیے ۔انہوں نے کہاکہ شہر لکھنؤ کہ جہاں ہماری تعداد اچھی خاصی ہے وہاں ہم محفوظ نہیں ہیں تو ان علاقوں کے بارے میں فکر کیجیے جہاں ہماری تعداد بہت کم ہے ،اس لئے ہمیں بیدار ہوکر تحریک چلانے کی ضرورت ہے ۔
ڈاکٹر کلب سبطین نوری نے مولاناپر ہوئے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ جس کے خون میں شرافت ہے وہ کبھی مولاناکلب جواد کے خدمات سے انکار نہیں کرسکتا۔وہ ہمیشہ ہر تحریک میں پیش پیش رہے ہیں خواہ وہ عزاداری کی تحریک رہی ہویا اوقاف کے تحفظ کی تحریک ہو۔بہت کم لوگوں میں یہ جرأت ہوتی ہے کہ وہ میدان عمل میں آکر بول سکیں ۔انہوں نے کہاکہ افسوس کی بات ہے کہ اب تک مجرموں کے خلاف پولیس نے کوئی کاروائی نہیں کی ۔انہیں جلد از جلد گرفتار ہوناچاہیے ۔اگر قوم اب بھی گھروں سے باہر نہیں نکلے گی تو کب نکلے گی ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ سرکار اس واقعہ کی جانچ کرواکے مجرموں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کرے ۔
مولانا موسی رضا یوسفی نے اپنی تقریر میں کہاکہ علماء اورقوم کے ذمہ دار افراد کو مولاناپر ہوئے حملے کی بات سرکار تک پہونچاناچاہیے اور کاروائی کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔انہوں نے کہاکہ انجمن ہائےماتمی،علمائے کرام اور قوم سڑکوں پر آکر احتجاج کرے اس کےبغیر کچھ نہیں ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ایک وفد کو وزیر اعلیٰ سے ملاقات کرکے مجرموں کی گرفتاری کا مطالبہ کرنا چاہیے ۔مولانانے آگے کہاکہ جب تک ہم عوامی تحریک شروع نہیں کریں گے ضلع انتظامیہ کے کان پر جوں نہیں رینگے گی ۔انہوں نے مزید کہاکہ علماء اور اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے بیانات کو سرکار تک منتقل کریں ۔مولانا حیدر عباس رضوی نے کہاکہ عالم دین کی توقیر خداکی توقیر ہوتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ مولانا پر ہوئے حملےکے خلاف اگر سرکار سخت قانونی کاروائی نہیں کرتی ہے تو ہمیں گھروں سے نکل کر احتجاج کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ ایک لایحۂ عمل کے تحت ہمیں حکومت تک اپنی بات پہنچانی چاہیے تاکہ کاروائی ہوسکے ۔وقف بورڈ کے رکن مولانا رضاحسین رضوی نے کہاکہ اگر جلد از جلد مجرموں کو گرفتار نہیں کیاگیاتو ہم عوامی تحریک شروع کریں گے ۔انہوں نے کہاکہ سرکار اور انتظامیہ ہمارے صبر کا امتحان نہ لے ۔
آخر میں مجلس علمائے ہند کے جنرل سکریٹری مولانا کلب جوادنقوی نے تمام علماءاور شرکاءکا شکریہ اداکرتے ہوئے کہاکہ وقف اور زمین مافیائوں کا حملے بہت منظم تھالیکن اس کا ایک فائدہ یہ ہواکہ وقف کی املاک پر ناجائز تعمیرات اور قبضے کی خبر پورے ہندوستان میں پھیل گئی ۔میڈیا نے اس واقعے میں مثبت کردار اداکیااور وقف مافیائوں کے ارادوں کو بے نقاب کردیا۔مولانانے کہاکہ اوقاف کی تحریک کو اسی طرح چلنا چاہیے جس طرح عزاداری تحریک چلی تھی تاکہ وقف املاک کا تحفظ کیاجاسکے ۔انہوں نے مزیدکہاکہ اگر علماء اور قوم کے افراد نے ہمارا اسی طرح ساتھ دیاتو ان شاءاللہ یہ تحریک بھی کامیاب ہوگی ۔انہوں نے کہاکہ دیوالی کے بعد کربلا عباس باغ میں بڑا عوامی جلسہ منعقد ہوگا۔ہم ایسے حملوں سے خوفزدہ ہوکر تحریک سے دستبردار نہیں ہوں گے ۔ہم نے عزاداری اور وقف تحریک میں بہت مصیبتیں برداشت کی ہیں اور آئندہ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ۔
ان کے علاوہ مولانا شفیق عابدی ،مولانا عادل فراز ،انجمن ہائی ماتمی کی طرف سے میثم رضوی اور دیگر علماء نے اپنی تقاریر میں تجاویز پیش کیں ۔جلسے میں مولانااعجاز حیدر،مولانا مکاتب علی خان،مولانا محمد ابراہیم ،مولانا احتشام الحسن ،مولانا زوار حسین ،مولانا شباہت حسین ،مولاناعلی ہاشم عابدی،مولانا عقیل عباس ،مولانا محمد حسن ،مولانا عباس اصغر شبریز،مولانا منظر عباس،مولانا علی محمد ،مولانا محفوظ علی ،مولانا سلم مرتضیٰ ،مولانا نفیس اختر ،مولاناعلمدار حسین ،مولانا فیروز علی ،مولانا راحت حسین ،مولانا فیروز حسین ،مولانانذر عباس،مولانا منہال حیدر،مولانا قمرالحسن اور دیگر علماء کے ساتھ انجمن ہائی ماتمی کے نمائندہ افراد شامل رہے ۔