دہلی ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ: خود کفیل شریکِ حیات کو بھتہ نہیں دیا جا سکتا
21
M.U.H
18/10/2025
نئی دہلی: دہلی ہائی کورٹ نے اپنے ایک حالیہ فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کوئی شریکِ حیات (شوہر یا بیوی) مالی طور پر خود کفیل اور قابل ہے، تو اُسے بھتہ (الیمونی) نہیں دیا جا سکتا۔ جسٹس انیل چھترپال اور جسٹس ہریش ویدیناتھن شنکر پر مشتمل بینچ نے یہ واضح کیا کہ مستقل بھتہ صرف ایک سماجی انصاف کا ذریعہ ہے، نہ کہ معاشی مساوات یا فائدہ کمانے کا وسیلہ۔
عدالت نے کہا کہ ہندو میرج ایکٹ کی دفعہ 25 کے تحت بھتہ تبھی دیا جا سکتا ہے جب درخواست گزار واقعی مالی مدد کی ضرورت کو ثابت کرے۔ اگر کوئی شخص خود کفیل ہو، تو اُسے الیمونی دینا عدالتی اختیارات کا غلط استعمال ہوگا۔ ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے اُس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں ایک خاتون کو الیمونی دینے سے انکار کیا گیا تھا اور شوہر کو بیوی کی طرف سے ذہنی اور جسمانی ظلم کی بنیاد پر طلاق دی گئی تھی۔
یہ معاملہ ایک ایسے جوڑے سے متعلق تھا جن کی شادی جنوری 2010 میں ہوئی تھی، لیکن صرف 14 ماہ بعد وہ الگ ہو گئے۔ شوہر پیشے سے وکیل ہیں جبکہ بیوی انڈین ریلوے ٹریفک سروس کی گروپ-A افسر ہیں۔ شوہر نے بیوی پر ذہنی و جسمانی ظلم، توہین آمیز زبان استعمال کرنے اور سماجی وقار کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات لگائے۔ بیوی نے بھی شوہر پر تشدد کے الزامات عائد کیے۔
فیملی کورٹ نے طلاق منظور کرتے ہوئے یہ بھی نوٹ کیا کہ بیوی نے طلاق کے بدلے 50 لاکھ روپے کے تصفیے کا مطالبہ کیا تھا۔ دہلی ہائی کورٹ نے کہا کہ ایسا رویہ ظاہر کرتا ہے کہ بیوی کی نیت شادی بچانے کی نہیں بلکہ مالی فائدہ اٹھانے کی تھی۔ عدالت نے یہ بھی پایا کہ بیوی نے شوہر اور اس کی والدہ کے ساتھ بدزبانی اور توہین آمیز زبان استعمال کی، جو کہ ذہنی ظلم کے ثبوت کے طور پر کافی ہے۔
عدالت نے کہا کہ شادی کی قلیل مدت، اولاد کا نہ ہونا، اور بیوی کی اعلیٰ آمدنی – ان سب وجوہات کی بنا پر وہ الیمونی کی حقدار نہیں بنتی۔ اسی بنیاد پر دہلی ہائی کورٹ نے فیملی کورٹ کے فیصلے کو درست قرار دیا اور الیمونی کے مطالبے کو خارج کر دیا۔