وقف ایکٹ:تین اہم نکات پرسپریم کورٹ کا عبوری حکم محفوظ
18
M.U.H
22/05/2025
نئی دہلی:سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) قانون 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت مکمل کرنے کے بعد جمعرات کو تین اہم نکات پر عبوری حکم محفوظ رکھ لیا ہے۔ ان نکات میں عدالتوں کے ذریعے وقف، وقف بائی یوزر یا وقف بائی ڈیڈ قرار دی گئی جائیدادوں کو غیرمشتہر (ڈی نوٹیفائی) کرنے کے اختیار کا معاملہ بھی شامل ہے۔ چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بینچ نے ترمیمی قانون کے خلاف سینئر وکلاء کپل سبل، راجیو دھون اور ابھشیک منو سنگھوی کی دلائل اور مرکزی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشارد مہتا کے دلائل کو مسلسل تین دن تک سنا، جس کے بعد عدالت نے عبوری فیصلہ محفوظ کر لیا۔
مرکزی حکومت نے اس قانون کا بھرپور دفاع کیا اور کہا کہ وقف بذاتِ خود ایک سیکولر (غیر مذہبی) تصور ہے اور آئینی اصولوں کے مطابق اس پر پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ دوسری جانب درخواست گزاروں کے وکیل کپل سبل نے اس قانون کو تاریخی قانونی و آئینی اصولوں سے انحراف اور غیر عدالتی عمل کے ذریعے وقف جائیدادوں پر قبضے کا منصوبہ قرار دیا۔ سبل نے دلیل دی کہ کہ یہ وقف املاک پر ایک منظم قبضے کا معاملہ ہے۔ حکومت یہ فیصلہ نہیں کر سکتی کہ عدالت میں کن نکات کو اٹھایا جائے۔
درخواست گزاروں نے عدالت سے تین بنیادی نکات پر عبوری حکم جاری کرنے کی گزارش کی۔ جس کے مطابق عدالت کی طرف سے وقف، وقف بائی یوزر یا وقف بائی ڈیڈ قرار دی گئی جائیدادوں کو غیرمشتہر کرنے کے اختیار کو چیلنج کیا گیا ہے۔ ریاستی وقف بورڈ اور مرکزی وقف کونسل کی تشکیل پر اعتراض کیا گیا ہے۔
درخواست گزاروں کا مطالبہ ہے کہ ان اداروں میں (پدن ارکان کے علاوہ) صرف مسلمانوں کو شامل کیا جانا چاہیے۔ وہ شق جس کے مطابق اگر کلیکٹر کی تفتیش سے پتہ چلے کہ جائیداد سرکاری زمین ہے، تو اسے وقف قرار نہیں دیا جائے گا — اس شق پر بھی اعتراض اٹھایا گیا ہے۔ مرکزی وزارتِ اقلیتی امور نے 25 اپریل کو عدالت میں 1332 صفحات پر مشتمل ابتدائی حلف نامہ داخل کرتے ہوئے ترمیمی قانون کی حمایت کی۔
حکومت نے مؤقف اختیار کیا کہ ایسے قانون پر عدالت کی طرف سے پابندی عائد کرنا نامناسب ہوگا جس کے پیچھے آئینی بنیادیں موجود ہیں۔ جب کہ وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں نے عدالت کے روبرو دلیل دی ہے کہ اگر کوئی زمین دو سو سال پہلے وقف کی گئی ہو تو اب حکومت کیسے اسے واپس مانگ سکتی ہے؟ اگر اس اصول کو مان لیا جائے، تو کیا کل حکومت لکھنؤ کا امام باڑہ بھی واپس لے لے گی؟
بار اینڈ بنچ کی رپورٹ کے مطابق، چیف جسٹس بھوشن رام کرشن گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بینچ کے سامنے سینئر وکیل کپل سبل نے درخواست گزاروں کی طرف سے یہ موقف پیش کیا۔انہوں نے کہا کہ ایک مخصوص برادری کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ ملک میں ایسے کئی قبرستان موجود ہیں جو دو سو سال پرانے ہیں۔ ان کی زمین مسلمانوں کو دی گئی تھی، اب حکومت کہہ رہی ہے کہ یہ زمین ہماری ہے، ہمیں واپس کرو۔ قبرستان اس طرح واپس نہیں لیے جا سکتے۔
کپل سبل نے عدالت سے سوال کیا ذرا سوچیے، اگر کل کو حکومت لکھنؤ کے امام باڑے کے بارے میں بھی ایسا ہی دعویٰ کرنے لگے تو کیا ہوگا؟ چیف جسٹس گوئی نے اس پر اہم ریمارکس دیے۔ انہوں نے کہا کہ اگر 1923 کے وقف قانون کے تحت ان جائیدادوں کا رجسٹریشن ہو جاتا، تو آج یہ مسئلہ ہی نہ ہوتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ 1923 یا 1925 سے اب تک رجسٹریشن کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ جسٹس مسیح نے پوچھا کیا مطلب یہ ہے کہ جیسے ہی کسی جائیداد پر تنازع ہوا، اور تفتیش شروع ہوئی، تو فائنل رپورٹ آنے تک وہ جائیداد وقف کی نہیں مانی جائے گی؟
کپل سبل نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے کہاجی ہاں، اور یہ بھی مسئلہ ہے کہ تفتیش کی ذمہ داری کلیکٹر کو دی گئی ہے، اور اس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ یعنی جائیداد کلیکٹر کے فیصلے پر منحصر ہو جائے گی۔ درخواست گزاروں کو نئے وقف قانون پر اعتراضات ہیں کہ قدیم وقف جائیدادوں پر دوبارہ دعوے کا امکان – کوئی بھی شخص دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ جائیداد وقف ہے، اور پھر تفتیش شروع ہو جاتی ہے۔ تفتیش کے دوران قبضہ ختم ہو جاتا ہے – جیسے ہی دعویٰ درج ہوا، وقف کا قبضہ ختم تصور کیا جائے گا، اور فیصلہ آنے پر طے ہوگا کہ جائیداد کس کی ہے۔
تفتیشی اختیار حکومت کے اہلکاروں کو دینا – جیسے کلیکٹر، جو خود حکومت کا نمائندہ ہے، اس کے پاس یہ طاقت ہوگی کہ وہ فیصلہ کرے کہ زمین وقف ہے یا سرکاری۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ یہ قانون وقف املاک پر غیر منصفانہ قبضے کی راہ ہموار کرتا ہے، اور صدیوں پرانے وقف ادارے، مساجد، قبرستان اور دیگر املاک بغیر عدالتی تحفظ کے متنازع ہو سکتے ہیں۔ اب عدالت نے معاملے پر عبوری حکم محفوظ رکھا ہے، جس کے بعد آنے والا فیصلہ وقف قوانین کی آئینی حیثیت پر بہت دور رس اثر ڈالے گا۔
واضح رہے کہ وقف (ترمیمی) قانون 2025 کو گزشتہ ماہ مرکز نے نوٹیفائی کیا تھا، جسے 5 اپریل کو صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی منظوری ملی تھی۔ یہ بل لوک سبھا میں 288 ارکان کی حمایت اور 232 ارکان کی مخالفت کے ساتھ منظور ہوا، جبکہ راجیہ سبھا میں 128 ووٹ حق میں اور 95 ووٹ مخالفت میں ڈالے گئے۔