آپریشن سندور پر تبصرہ: سپریم کورٹ سے پروفیسر علی خان کو عبوری ضمانت، جانچ کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل
26
M.U.H
21/05/2025
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ 21 مئی کو اشوکا یونیورسٹی کے پروفیسر علی خان محمود آباد کو سوشل میڈیا پر 'آپریشن سندور' کے بارے میں پوسٹ کرنے کے معاملے میں درج ایف آئی آر کے تحت عبوری ضمانت دے دی۔ وہ 18 مئی سے پولیس حراست میں تھے۔ عدالت نے ضمانت تو دی، مگر تفتیش پر روک لگانے سے انکار کیا۔
عدالت نے ہریانہ کے ڈی جی پی کو 24 گھنٹے کے اندر ایک خصوصی تفتیشی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دیا ہے۔ اس ٹیم میں آئی جی رینک کا ایک افسر سربراہ ہوگا، جبکہ دیگر دو ارکان ایس پی رینک کے ہوں گے۔ ٹیم میں ایک خاتون افسر کی موجودگی بھی لازمی قرار دی گئی ہے۔ عدالت نے یہ واضح کیا کہ اس ٹیم کے ارکان ہریانہ یا دہلی سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔
عدالت نے عبوری ضمانت کی شرط کے طور پر پروفیسر علی خان کو سوشل میڈیا پر معاملے سے متعلق کوئی بھی پوسٹ کرنے، یا ہندوستان میں دہشت گرد حملوں یا فوجی جوابی کارروائیوں پر اظہارِ رائے سے روکتے ہوئے تفتیش میں مکمل تعاون کی ہدایت دی۔
جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس این کے سنگھ پر مشتمل بنچ نے واضح کیا کہ یہ ضمانت صرف تفتیش میں سہولت کے لیے دی گئی ہے۔ دورانِ سماعت جسٹس کانت نے پروفیسر کی سوشل میڈیا پوسٹ پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسی رائے کو 'ڈاگ وسلنگ' کہا جاتا ہے، جو بظاہر نرم لیکن اندرونی طور پر اشتعال انگیز ہوتی ہے۔
جسٹس کانت نے کہا کہ ہر کسی کو اظہارِ رائے کا حق ہے، مگر حساس وقت پر الفاظ کا انتخاب اہم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ایک بڑے چیلنج سے گزر رہا ہے، ایسے وقت میں سستی مقبولیت کے لیے بیان بازی مناسب نہیں۔
پروفیسر کے وکیل، سینئر ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ ان کے مؤکل کی پوسٹ ملک سے محبت پر مبنی ہے، جس کا اختتام ’جے ہند‘ سے ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پروفیسر کی بیوی نو ماہ کی حاملہ ہیں۔ سبل نے مزید کہا کہ اگرچہ پوسٹ میں اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن اس میں مجرمانہ ارادہ نہیں ہے۔
عدالت نے ریاستی نمائندہ، ایڈیشنل سالیسٹر جنرل ایس وی راجو سے سوال کیا کہ آیا پوسٹ سے خاتون فوجی افسران کی توہین ہوئی ہے۔ راجو نے کہا کہ یہ پوسٹ معصوم نہیں ہے، جیسا کہ سبل پیش کر رہے ہیں اور اس کے مختلف معنی لیے جا سکتے ہیں۔
گزشتہ روز سونی پت کی عدالت نے علی خان کو عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا، جبکہ پولیس کی سات دن کی مزید حراست کی درخواست مسترد کر دی گئی۔ ابتدائی طور پر انہیں دو دن کی پولیس حراست میں بھیجا گیا تھا۔
پروفیسر علی خان پر آئی پی سی کی دفعات 152، 196 وغیرہ کے تحت مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے، قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے اور خواتین کی توہین کے الزامات شامل ہیں۔ ہریانہ خواتین کمیشن نے بھی انہیں طلب کیا ہے۔