وقف قانون: سپریم کورٹ نے مانگا آئینی جواز کی خلاف ورزی کا پختہ ثبوت، مرکز نے کی سماعت 3 موضوعات پر محدود رکھنے کی گزارش
17
M.U.H
20/05/2025
’وقف (ترمیمی) قانون 2025‘ کے آئینی جواز کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر عدالت عظمیٰ نے 20 مئی کو سماعت کی۔ چیف جسٹس بی آر گوئی کی صدارت والی 2 رکنی بنچ نے دونوں فریقین کی دلیلیں سنیں اور کئی معاملوں میں وضاحت بھی طلب کی۔ اس بنچ میں شامل دوسرے جج جسٹس آگسٹن جارج مسیح ہیں۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے پارلیمنٹ سے پاس قوانین کے آئینی جواز سے متعلق انتہائی اہم تبصرہ کیا۔ انھوں نے وقف (ترمی) قانون کو چیلنج پیش کرنے والے عرضی دہندگان سے کہا کہ ’’پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس قوانین میں آئینی جواز کا عنصر ہوتا ہے اور کوئی قانونی آئینی نہیں ہے، اس کا جب تک کوئی پختہ ثبوت سامنے نہیں آتا، عدالتیں اس میں مداخلت نہیں کر سکتیں۔‘‘
آج ہوئی سماعت کے دوران مرکزی حکومت نے عدالت عظمیٰ سے گزارش کی کہ وہ عبوری حکم پاس کرنے کے لیے ’وقف (ترمیمی) قانون‘ کے آئینی جواز کو چیلنج پیش کرنے والی عرضیوں پر سماعت کو 3 موضوعات پر محدود رکھے، جن میں ’کورٹ، یوزر اور ڈیڈ‘ کے ذریعہ اعلان کردہ وقف ملکیتوں کو ڈی-نوٹیفائی کرنے سے متعلق بورڈس کا اختیار بھی شامل ہے۔ مرکز کی طرف سے سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے چیف جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح کی بنچ کے سامنے یہ گزارش رکھی۔ تشار مہتا نے کہا کہ ’’عدالت نے 3 موضوعات نشان زد کیے تھے۔ حالانکہ عرضی دہندہ چاہتے ہیں کہ ان 3 موضوعات سے الگ بھی کئی دیگر ایشوز پر سماعت ہو۔ میں نے ان 3 موضوعات کے جواب میں اپنا حلف نامہ داخل کیا ہے۔ میری گزارش ہے کہ اسے صرف 3 موضوعات تک ہی محدود رکھا جائے۔‘‘
اس معاملے میں ’وقف (ترمیمی) قانون‘ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والے عرضی دہندگان کی طرف سے پیش سینئر وکیل کپل سبل اور ابھشیک منو سنگھوی نے مرکز کی دلیل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اہم قوانین پر ٹکڑوں میں سماعت نہیں ہو سکتی۔ کپل سبل نے دلیل پیش کی کہ ترمیم شدہ قانون آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہم تو سبھی موضوعات پر دلیل رکھیں گے۔ یہ مکمل وقف جائیداد پر قبضہ کرنے کا معاملہ ہے۔ کپل سبل نے سپریم کورٹ سے کہا کہ اس معاملے مین عبوری حکم جاری کرنے پر سماعت ہونی چاہیے۔ یہ قانون غیر آئینی اور وقف جائیداد کو کنٹرول کرنے والا اور چھیننے والا ہے۔
وقف ترمیمی قانون کے بارے میں بات کرتے ہوئے کپل سبل نے کہا کہ ترمیم شدہ قانون میں التزام کیا گیا ہے کہ وقف کی جانے والی جائیداد پر کسی تنازعہ کا اندیشہ ہونے پر جانچ کیا جائے گا۔ کلکٹر جانچ کریں گے اور جانچ کی کوئی مدت کار نہیں ہے۔ جب تک جانچ کی رپورٹ نہیں آئے گی، تب تک جائیداد وقف نہیں مانی جائے گی۔ جبکہ جائیداد اللہ کے نام پر وقف کی جاتی ہے۔ ایک بار وقف ہو گیا تو ہمیشہ کے لیے ہو گیا۔ حکومت اس میں معاشی مدد نہیں دے سکتی۔ مساجد میں چڑھاوا نہیں ہوتا، وقف ادارے عطیہ سے چلتے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ درگاہوں میں تو چڑھاوا ہوتا ہے۔ جواب میں ایڈووکیٹ کپل سبل نے کہا کہ میں مساجد کی بات کر رہا ہوں، درگاہ الگ ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مندروں میں چڑھاوا آتا ہے، لیکن مساجد میں نہیں۔ یہی ’وقف بائے یوزر‘ ہے۔ بابری مسجد بھی ایسی ہی تھی۔ 1923 سے لے کر 1954 تک الگ الگ التزامات ہوئے، لیکن بنیادی اصول یہی رہے۔
کپل سبل نے عدالت عظمیٰ کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ وقف قانون میں ترمیم کے ذریعہ ایک ایسا عمل تیار کیا گیا جس کے ذریعہ سے وقف جائیداد پر کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ وقف کو عطیہ کردہ نجی ملکیتوں کو صرف اس لیے چھینا جا رہا ہے کیونکہ ان کے تنازعہ کا شکار ہونے کا اندیشہ ہے، یا ان کے مالکانہ حق کو لے کر تنازعہ ہے۔ اس قانون کو وقف جائیدادوں پر قبضہ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ مذہبی اداروں کی فنڈنگ کر سکتا۔ اگر کوئی مسجد یا قبرستان ہے تو اسٹیٹ اس کی فنڈنگ نہیں کر سکتا، یہ سب نجی ملکیت کے ذریعہ سے ہی ہونا چاہیے۔ اگر آپ مسجد میں جاتے ہیں تو وہاں مندروں کی طرح چڑھاوا نہیں ہوتا، ان کے پاس 1000 کروڑ، 2000 کروڑ نہیں ہوتے۔
کپل سبل کچھ دیگر اہم حقائق پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیا قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی ملکیت اے ایس آئی کے تحفظ میں ہے تو یہ وقف نہیں ہو سکتی۔ اس پر چیف جسٹس بی آر گوئی نے سوال کیا کہ کیا اس سے آپ کا اپنے مذہب پر عمل کرنے کا اختیار ختم ہو جاتا ہے؟ کیا آپ وہاں جا کر عبادت نہین کر سکتے؟ جواب میں سبل نے کہا کہ ’’ہاں، اس قانون میں کہا گیا ہے کہ وقف جائیداد کو رد مانا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ نے پھر سوال کیا کہ کیا اس سے آپ کا مذہبی عمل سے متعلق اختیار چھین لیا جاتا ہے؟ سبل نے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی جائیداد کی وقف منظوری ہی ختم ہو جاتی ہے تو میں وہاں کیسے جا سکتا ہوں؟ اس کے جواب میں چیف جسٹس نے کہا کہ کھجوراہو میں ایک مندر آثار قدیمہ کے تحفظ میں ہے، پھر بھی لوگ وہاں جا کر پوجا کر سکتے ہیں۔ تو کیا اس طرح کے اعلان سے آپ کو عبادت کرنے کا اختیار نہیں رہ جاتا؟ جواب میں سبل کہتے ہیں کہ اگر آپ کہتے ہین کہ وقف منظوری رد کی جاتی ہے، تو اس کا صاف مطلب ہے کہ اب وہ جائیداد قف نہیں ہے۔ میرا یہی کہنا ہے کہ یہ التزام آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے۔ پھر عدالت نے ریکارڈ پر لیا کہ عرضی دہندگان نے کہا ہے کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی ہے اور شہریوں سے ان کی مذہبی عمل کو جاری رکھنے کا اختیار چھین لیا جائے گا۔