راہل گاندھی کے 'نریندر، سرینڈر' بیان پر ششی تھرور کا ردعمل
39
M.U.H
05/06/2025
واشنگٹن ڈی سی میں موجود ششی تھرور نے کہا کہ جب تک پاکستان دہشت گردی کی زبان استعمال کرتا رہے گا، ہندوستان کو بھی اسی زبان میں جواب دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان طاقت کی زبان بولے گا اور کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی ضرورت نہیں ہے۔ جانیں کہ کانگریس رہنما ششی تھرور نے راہل گاندھی کے سرینڈر بیان پر کیا کہا۔
لوک سبھا میں راہل گاندھی کے وزیر اعظم نریندر مودی پر ‘سرینڈر’ کے بیان پر بحث جاری ہے۔ اب کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ششی تھرور بھی اس معاملے میں سامنے آ چکے ہیں۔ وہ آپریشن سندور کے تحت ہندوستان کے آؤٹریچ مشن کی قیادت کرتے ہوئے واشنگٹن ڈی سی میں موجود ہیں۔ یہاں ان سے راہل کے بیان پر ردعمل مانگا گیا۔ پریس کانفرنس کے دوران ششی تھرور نے ‘سرینڈر’ بیان پر تبصرہ کیا۔
ایک خاتون صحافی نے ششی تھرور سے سوال کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے حالیہ تصادم میں صدر ٹرمپ کی ثالثی کی کوششوں کو لے کر بیانات جاری ہیں۔ آپ کی پارٹی مسلسل سوال اٹھا رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے حال ہی میں کہا کہ وزیراعظم مودی نے ٹرمپ کے سامنے سرینڈر کر دیا۔ اس پر جواب دیتے ہوئے ششی تھرور نے کہا کہ کانگریس پارٹی امریکہ کے صدر کے عہدے کا مکمل احترام کرتی ہے اور ہمارے دل میں اس عہدے کے لیے گہری عقیدت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہندوستانی حکومت نے خاص طور پر کسی سے ثالثی کی درخواست نہیں کی ہے اور اس معاملے پر موقف واضح ہے۔
تیسرے فریق کی ثالثی کی ضرورت نہیں: ششی تھرور
آپریشن سیندور کے تحت امریکہ گئے ہندوستان کے آؤٹریچ مشن کی قیادت کر رہے ششی تھرور نے ہندوستان کے موقف کو واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان دہشت گردی کی زبان بولتا رہے گا، ہندوستان اسی زبان میں جواب دینے سے نہیں ہچکچائے گا۔ ہندوستان طاقت کی زبان بولے گا اور اس کے لیے کسی تیسرے فریق کی ثالثی کی ضرورت نہیں ہے۔
پہلگام میں دہشت گردوں نے مذہب کے بارے میں پوچھ کر قتل کیا
واشنگٹن ڈی سی میں ہندوستانی نژاد باشندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کانگریس رکن پارلیمنٹ ششی تھرور نے کہا، "پانچ سیاسی جماعتوں، سات ریاستوں کے سات ارکان پارلیمنٹ اور ہمارے ساتھ دو سفیر بھی ہیں۔ واشنگٹن کے موجودہ اور سابق سفیر بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ہمارے پاس آٹھ ریاستیں اور تین مذاہب ہیں۔ میں نے مذاہب کا ذکر اس لیے نہیں کیا کہ یہ اہم ہے، بلکہ اس لیے کہ پہلگام میں دہشت گردوں نے اپنے متاثرین سے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھ کر مذہب کو مسئلہ بنانے کی کوشش کی۔ پھر انہوں نے انہیں گولیاں ماریں اور اس ظالمانہ جرم کو اس طرح انجام دیا کہ زندہ بچے اس کہانی کو سنا سکیں۔ جب ایک خاتون، اپنے شوہر کو مرتے ہوئے دیکھ کر خوفزدہ ہو کر چیخی کہ مجھے بھی مار دو، تو انہوں نے کہا، نہیں، واپس جاؤ اور انہیں بتاؤ۔