ایران کے خلاف یورپ کے فریب کارانہ اقدامات، سفارتکاری کے ماتھے پر دھبہ ہیں: روسی وزیر خارجہ
31
M.U.H
16/12/2025
روسی وزیر خارجہ "سرگئی لاوروف" نے کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران یورپ کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اور غیر قانونی اقدامات، یورپی سفارت کاری پر ایک داغ ہیں۔ انہوں نے شعبدہ بازوں کی طرح فریبی اقدامات کئے۔ سرگئی لاوروف نے ان خیالات کا اظہار ایران کے نیشنل ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ یورپ نے گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران یہ کوشش کی کہ ایران پر الزام لگائیں کہ اس نے جامع مشترکہ عمل کا منصوبہ (JCPOA) سبوتاژ کیا، حالانکہ ایران نے کبھی اس دستاویز کی خلاف ورزی نہیں کی، یہاں تک کہ امریکہ نے 2018ء میں اعلان کیا کہ اب وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اس فیصلے كا پابند نہیں رہے گا۔ انہوں نے وضاحت کی كہ اب عالمی نظم و نسق ایران کے معاملے میں کڑے امتحان سے گزر رہا ہے۔ پہلے امریکہ نے ایران سے متعلق جوہری معاہدے کو کوڑے دان میں پھینک دیا اور پھر مغربی ممالک، خاص طور پر یورپ نے امریکہ کی پیروی کرتے ہوئے ایران پر جامع مشترکہ عمل کے منصوبے کی پاسداری نہ کرنے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔
کیا روس ایران کے ساتھ کھڑا ہوگا؟
روسی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ اگر ایران پر پہلے کی طرح جنگ مسلط کی گئی تو کیا ماسکو، تہران کے ساتھ کھڑا ہوگا؟۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہمارے مابین اسٹریٹجک پارٹنرشپ کا معاہدہ ہے، جس کی رو سے ہم ہمیشہ تہران کی حمایت اور اسلامی جمہوریہ ایران کے قانونی حقوق کی حفاظت کے لئے عمل کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران نے گزشتہ مہینوں میں کئی بار واضح طور پر کہا کہ اسے جنگ سے کوئی دلچسپی نہیں، نئے تنازعات میں الجھنے کا شوق نہیں اور وہ گفت و شنید کے ذریعے کسی بھی مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔ اس تناظر میں ہم یقین دہانی کرواتے ہیں کہ کسی بھی چیلنج کے دوران اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری اور قانونی حقوق کا احترام کرتے ہوئے تہران کے موقف کی مکمل حمایت کریں گے۔ سرگئی لاوروف نے بعض مغربی ماہرین کی رائے کو جھوٹ قرار دیا جس میں وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اگر امریکہ کے ساتھ روس کے تعلقات بہتر ہوئے تو روس، ایران کو چھوڑ دے گا۔
اس حوالے سے سرگئی لاوروف نے کہا کہ کم از کم ایک مثال تو دیں کہ ہم نے کسی بڑے اور طاقتور ملک کے ساتھ تعلقات کے لئے اپنے پرانے دوستوں کو قربان کیا ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے ہمارے ملک کی تاریخ میں ایسی غداری ہوئی ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے ملک کا نام سوویت یونین تھا جس نے ڈیموکریٹک جرمنی کو آسانی سے وفاقی جمہوریہ جرمنی کے حوالے کر دیا۔ یہ عمل سوویت یونین کی جانب سے اپنے اتحادی کے ساتھ ایک بڑی غلطی و غداری تھی، جب تقریباً نصف ملین فوجیوں کو بغیر کسی معاوضے کے واپس بلا لیا گیا، جب متحدہ جرمنی کے مشرقی حصے میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے امکان کو نظر انداز کر دیا گیا، ہمیں یہ سب یاد ہے۔ البتہ اس وقت مغربی جرمن حکام نے بھی بہت بڑی غلطی کی کہ مشرقی حصے کے حصول کے بعد انہوں نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا۔
ایران کے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے
روسی وزیر خارجہ نے گفتگو کے ایک اور حصے میں یاد دلایا کہ اس وقت جب اسرائیل اور پھر امریکہ نے ایران پر حملہ کیا، تو ہم نے ان حملوں کی مذمت کی۔ ان حملوں کی کوئی بین الاقوامی بنیاد یا جواز نہیں تھا اور اصل بات یہ ہے کہ آج تک نہ تو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی اور نہ ہی امریکہ و اسرائیل اس حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت پیش کر سکے ہیں کہ ایران نے کوئی خلاف ورزی کی۔ سرگئی لاوروف نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہم اسلامی جمہوریہ ایران کی اُن کوششوں کی حمایت کے لئے تیار ہیں جن کے ذریعے وہ اس صورت حال سے نکلنے، آئی اے ای اے اور مجموعی طور پر مغرب سے بہتر تعلقات بنانا چاہتا ہے۔ ہم تہران کے موقف کو سمجھتے ہیں۔ صدر پیوٹن نے بارہا اپنے ایرانی ہم منصب مسٹر پزشکیان اور ان کے نمائندوں سے کہا ہے کہ ہم وہ موقف اختیار کریں گے جو اسلامی جمہوریہ ایران کی قیادت اپنے لئے اور اپنی عوام کے مفاد میں منتخب کرتی ہے۔
رافائل گروسی کی رپورٹ زیادہ غیر جانبدار نہیں تھی
سرگئی لاوروف نے ایران کے موضوع پر بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی رپورٹ کے بارے میں کہا کہ ایجنسی نے ایک رپورٹ جاری کی جو زیادہ غیر جانبدار نہیں تھی، اس میں پرفریب ابہامات شامل تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مسٹر گروسی وضاحت کرتے تھے کہ یہ رپورٹ بالکل ان کے دائرہ اختیار کے اندر ہے، لیکن آپ دیکھیں کہ کس جوش و خروش کے ساتھ یورپین، فرنچ، جرمن اور انگریزوں نے اس رپورٹ کو ایران کے خلاف بنیاد بناتے ہوئے اچھالا۔ یہ وہی رپورٹ تھی جس نے ایران مخالف قرارداد پیش کرنے کی بنیاد بنائی اور بالآخر پابندیوں کی بحالی کے میکانزم کو فعال کرنے کے لئے اسی ایجنسی کی رپورٹس کا استعمال کیا گیا۔
جنگ غزہ
مزید انٹرویو میں سرگئی لاوروف نے غزہ جنگ اور وہاں جنگ بندی کے معاہدے پر کہا کہ ہمیں امریکی صدر "ڈونلڈ ٹرمپ" کا امن منصوبہ موصول ہوا۔ صورت حال یہ ہے کہ اسرائیل اور حماس اس منصوبے کی دفعات کی خلاف ورزی پر بات کر رہے ہیں۔ اس لئے مذکورہ امن منصوبے پر مزید عمل درآمد سوالیہ نشان ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے سب سے پہلے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اقدام کا خیرمقدم کیا کیونکہ اس منصوبے نے غزہ بحران کے ایک اہم انسانی مرحلے کو ختم کرنا، لاشوں کی واپسی اور قیدیوں کے تبادلے کو ممکن بنایا۔ لیکن میرے لئے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ مستقبل میں کیا ہوگا۔
شام کی صورتحال
روسی وزیر خارجہ نے شام میں بشار الاسد کے آخری دور کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کہ ابو محمد الجولانی نے اپنی پیش قدمی کے حوالے سے ہمارے ساتھ کوئی ہم آہنگی نہیں کی اور نہ ہی کسی نقطہ نظر پر عمل کیا۔ البتہ دوسری جانب بشار الاسد کے ساتھ ہمارے قریبی تعلقات تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب 2015ء میں دمشق مکمل طور پر محاصرے میں تھا اور اپوزیشن کے حملوں کے سامنے کسی بھی وقت حکومت گھٹنے ٹیک سکتی تھی اس وقت ہم بشار الاسد کی مدد کے لئے آئے، وہاں اپنی فوجی موجودگی قائم کی، 2 فضائی و بحری اڈے بنائے اور منظم انداز میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے کردار ادا کیا۔ ہم نے سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکیہ کے ساتھ تعاون کیا۔ میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ عمل نسبتاً مثبت رہا۔
2018ء میں سوچی میں شامی عوام کی قسمت کے فیصلے ہوئے لیکن ہم جب بھی اپنے ایرانی اور تُرک دوستوں کے ساتھ کسی نتیجے پر پہنچتے ہر بار کوئی رکاوٹ آڑے آ جاتی۔ البتہ سب کچھ بشار الاسد کی حکومت پر منحصر نہیں تھا۔ سرگئی لاوروف نے کہا کہ گزشتہ سال جب دوبارہ سے حملے شروع ہوئے تو ہمارے پاس شام میں لڑاکا یونٹس تو تھے نہیں، دو نیول اور ائیر بیسز ہی تھیں۔ دوسری جانب جس رفتار سے ابو محمد الجولانی کی قیادت میں اپوزیشن آگے بڑھ رہی تھی وہ درحقیقت غیر متوقع تھی۔ عملاً کوئی مزاحمت نہیں تھی اور اب ہم نئے حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔