بہار ووٹر لسٹ ایس آئی آر: آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو دستاویزات کے طور پر ماننے سے الیکشن کمیشن کا انکار
23
M.U.H
22/07/2025
بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) کے دوران، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے جس میں آدھار، ووٹر آئی ڈی اور راشن کارڈ کو شہریت کے ثبوت کے طور پر قبول کرنے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ ’لائیو لا‘ کی رپورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن نے اپنے جواب میں کہا ہے کہ ان دستاویزات کی بنیاد پر کسی شخص کی شہریت کا تعین ممکن نہیں، کیونکہ آدھار خود شہریت کا ثبوت نہیں ہے اور مختلف عدالتیں بھی اس کی تصدیق کر چکی ہیں۔
الیکشن کمیشن نے اپنے 21 جولائی کو سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامے میں واضح کیا ہے کہ ووٹر فوٹو شناختی کارڈ (ای پی آئی سی) خود اپنے اندر شہریت یا ووٹر بننے کی اہلیت کو ثابت نہیں کرتا، کیونکہ یہ پہلے سے موجود ووٹر لسٹ کی بنیاد پر جاری ہوتا ہے۔ اسی طرح کمیشن نے یہ بھی کہا کہ راشن کارڈوں میں بڑے پیمانے پر جعلسازی ہوئی ہے اور مرکز نے 5 کروڑ سے زائد فرضی کارڈ منسوخ کیے ہیں۔
الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا کہ آدھار جیسے دستاویزات دیگر دستاویزات کے ساتھ معاون حیثیت میں استعمال ہو سکتے ہیں لیکن انہیں حتمی یا لازمی شہریت کا ثبوت نہیں مانا جا سکتا۔ کمیشن نے زور دیا کہ دستاویزات کی فہرست صرف علامتی ہے اور انتخابی رجسٹریشن افسر کو اختیار حاصل ہے کہ وہ دیگر ثبوتوں کو بھی قبول کرے۔
کمیشن نے کہا کہ ووٹر لسٹ میں نام شامل کرنے کی غرض سے شہریوں سے شہریت سے متعلق مناسب دستاویزات طلب کرنا اس کا آئینی اختیار ہے، جو آئین کے آرٹیکل 324 اور 326 کے تحت اسے حاصل ہے۔ اس نے وضاحت کی کہ اگر کسی کا نام ووٹر لسٹ میں شامل نہیں ہوتا تو اس کی شہریت ختم نہیں مانی جا سکتی لیکن ووٹر کے طور پر رجسٹریشن کے لیے شہریت کا دستاویزی ثبوت دینا ضروری ہے۔
کمیشن کے مطابق، یکم جولائی 1987 سے قبل پیدا ہونے والوں کو صرف اپنی تاریخ یا مقام پیدائش کا ثبوت دینا ہے، 1987 سے 2 دسمبر 2004 کے درمیان پیدا ہونے والوں کو اپنے یا والدین میں سے کسی ایک کا اور 2 دسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کو اپنے اور دونوں والدین کا شہریت سے متعلق ثبوت دینا ہوگا۔ تاہم کمیشن نے اس فرق کی وضاحت نہیں کی۔
الیکشن کمیشن نے اس امر کو بھی اجاگر کیا کہ پچھلی دو دہائیوں میں کوئی مکمل ووٹر لسٹ نظرثانی نہیں ہوئی، اس لیے اب ایک سخت اور زمینی سطح پر کی جانے والی مشق کی ضرورت ہے، تاکہ فہرستوں کی درستگی اور شفافیت بحال ہو سکے۔ اسی مقصد کے تحت ایس آئی آر شروع کیا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ اس عمل میں کئی سطحوں پر جانچ کی جاتی ہے تاکہ کسی کا نام غیر قانونی طریقے سے نہ ہٹایا جائے۔ یہ تنازعہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اور اگلی سماعت 28 جولائی کو مقرر ہے۔
الیکشن کمیشن نے بہار میں ووٹر لسٹ کی چھان بین اور تصحیح سے متعلق اپنے اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر)کا دفاع کیا ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر جواب میں کمیشن نے کہا ہے کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر رہا ہے۔ جعلی ووٹرز کو ہٹانا اس کی ذمہ داری ہے۔ حقیقی ووٹرز کو اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن نے ایس آئی آر کی کامیابی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1 لاکھ سے زیادہ بی ایل اوز، ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بوتھ ایجنٹس اور تقریباً ایک لاکھ رضاکار اس کام میں لگے ہوئے ہیں۔ فارم جمع کرانے میں ابھی 4 دن باقی ہیں تاہم تقریباً 96 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔
کمیشن نے کہا ہے کہ سیاسی پارٹیوں کے بوتھ لیول ایجنٹس خود ایس آئی آرمیں حصہ لے رہے ہیں، لیکن پارٹی اس حقیقت کو چھپا کر سپریم کورٹ میں ایس آئی آرکی مخالفت کر رہی ہے۔ میڈیا کا ایک حصہ جان بوجھ کر ایس آئی آرکے بارے میں گمراہ کن خبریں پھیلا رہا ہے۔
حلف نامے میں کہا گیا ہے کہ کچھ سیاسی جماعتوں اور این جی اوز نے پرانے ڈیٹا اور میڈیا میں شائع ہونے والی چیزوں کی بنیاد پر سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ ایس آئی آرکامیابی سے جاری ہے۔ اسے مکمل ہونے دیں۔ قبل از وقت دائر کی گئی ان درخواستوں کی سماعت نہ کی جائے۔
28 جولائی کو ہونے والی سماعت سے ایک ہفتہ قبل داخل کیے گئے جواب میں الیکشن کمیشن نے یہ بھی کہا کہ ایس آئی آر کی وجہ سے کوئی بھی شہریت سے محروم نہیں ہوگا۔ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ ایس آئی آرمیں مذہب، ذات پات، زبان، جنس وغیرہ کی بنیاد پر کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کیا جا رہا ہے۔ اس لیے مساوات کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کی دلیل غلط ہے۔ جو لوگ 2003 کی ووٹر لسٹ میں تھے وہ جنوری 2025 میں جاری ووٹر لسٹ میں بھی شامل ہیں۔