کرنل صوفیہ پر قابل اعتراض بیان دینے والے وزیر وجے شاہ کو سپریم کورٹ کی پھٹکار، ’وزیر ہو کر ایسی زبان؟‘
16
M.U.H
15/05/2025
نئی دہلی: مدھیہ پردیش کے کابینی وزیر وجے شاہ کو سپریم کورٹ سے اس وقت سخت سرزنش کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے کرنل صوفیہ قریشی پر دیے گئے انتہائی قابل اعتراض بیان کے سلسلے میں سپریم کورٹ سے ایف آئی آر منسوخ کرنے اور ہائی کورٹ کے حکم پر روک لگانے کی درخواست کی۔ عدالت عظمیٰ نے ان کی عرضی مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ وزیر جیسے ذمہ دار عہدے پر بیٹھے فرد کو ایسی زبان زیب نہیں دیتی۔
چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سبکدوشی کے بعد نئے چیف جسٹس بی آر گوئی کی سربراہی والی بنچ اس معاملہ کی سماعت کر رہی تھی۔ بنچ نے سخت الفاظ میں کہا، ’’آپ وزیر ہیں اور اس حیثیت میں آپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اس طرح کی زبان استعمال کریں؟ کیا یہ ایک وزیر کو زیب دیتا ہے؟‘‘
سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ جب ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہو تو عوامی عہدے پر بیٹھے شخص سے اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات کی ہرگز توقع نہیں کی جا سکتی۔ عدالت نے کہا کہ وزیر کے بیان سے سماجی ہم آہنگی پر اثر پڑتا ہے اور ایسے وقت میں ایک خاتون فوجی افسر کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔
وجے شاہ کے وکیل نے دلیل دی کہ ان کے موکل نے معافی مانگ لی ہے اور میڈیا نے ان کے بیان کو سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے پیش کیا۔ تاہم عدالت نے سوال کیا کہ اگر انہیں شکایت تھی تو وہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے سامنے پیش کیوں نہ ہوئے؟ عدالت نے مزید کہا کہ وہ اس معاملے کی اگلی سماعت کل کرے گی اور 24 گھنٹے میں کچھ ایسا نہیں ہوگا جس سے روک لگانا ضروری ہو۔
واضح رہے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے وجے شاہ کے بیان پر سخت برہمی ظاہر کی تھی اور مان پور تھانے کو ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا، جس کے بعد ان کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا کی دفعات 152، 196(1)(بی) اور 197(1)(سی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
وجے شاہ نے اپنے بیان پر معافی مانگتے ہوئے کہا تھا، ’’میں خواب میں بھی کرنل صوفیہ بہن کے خلاف کچھ غلط نہیں سوچ سکتا۔ وہ قوم کی بہادر بیٹی ہیں، میں انہیں سلام کرتا ہوں۔ اگر جوش میں کوئی لفظ غلط نکل گیا ہو تو میں اس کے لیے مخلصی سے معافی مانگتا ہوں۔‘‘ لیکن سپریم کورٹ کے مطابق، محض معافی کافی نہیں جب بات وزیر جیسے منصب پر بیٹھے شخص کے بیان کی ہو، جو معاشرے پر گہرے اثرات ڈال سکتا ہے۔