آپریشن سندور: شہید بی ایس ایف جوان محمد امتیاز کی آخری رسومات ادا، ہزاروں دیہی عوام نے نم آنکھوں سے کیا وداع
14
M.U.H
12/05/2025
’آپریشن سندور‘ کے دوران پاکستانی گولی باری میں شہید ہوئے بی ایس ایف سَب انسپکٹر محمد امتیاز کا جسد خاکی پیر کے روز دوپہر جب بہار کے سارن (چھپرہ) ضلع واقع ان کے گاؤں نارائن پور پہنچا تو وہاں موجود سبھی کی آنکھیں نم تھیں۔ شہید محمد امتیاز کا آخری دیدار کرنے کے لیے ہزاروں افراد کا ہجوم وہاں موجود تھا۔ صبح سے ہی ان کی رہائش کے باہر لوگوں کی بھیڑ جمع ہونی شروع ہو گئی تھی۔ وہ سبھی ملک کی حفاظت کے لیے قربانی دینے والے اپنے بہادر جوان کو آخری بار دیکھنے کو منتظر تھے۔ سبھی کی آنکھیں نم ضرور تھیں، لیکن فخر بھی تھا کہ گاؤں کا بیٹا ملک کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوا۔
شہید محمد امتیاز کا جب جنازہ نکلا اور تدفین کا عمل انجام دیا جا رہا تھا تو زور و شور سے ’ویر شہید امر رہے‘ کے نعرے گونج رہے تھے۔ نارائن پور کی سڑک پر دونوں طرف تقریباً 2 کلومیٹر تک ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی بھیڑ نظر آ رہی تھی اور کئی لوگوں کے ہاتھوں میں ترنگا دکھائی دے رہا تھا۔ کئی لوگ ’ہندوستان زندہ باد‘ کا نعرہ بلند کر رہے تھے۔ رہ رہ کر ’بھارات ماتا کی جئے‘ کا نعرہ بھی سنائی دے رہا تھا۔
اس بھیڑ میں موجود نوجوان طبقہ شہید محمد امتیاز کے جسد خاکی کو دیکھ کر ایک عجب سے جوش میں مبتلا دکھائی دے رہا تھا۔ گاؤں کے لوگوں نے کہا کہ اگر ملک کے لیے ضرورت پڑی تو وہ ابھی اپنے بیٹے بیٹیوں کو سرحد پر بھیجنے کے لیے تیار ہیں، انھیں بخوشی وہ قربان کرنے پر راضی ہیں۔ وہاں موجود سبھی امتیاز کی شہادت پر فخر کرتے ہوئے بھی دکھائی دیے۔
ہند-پاک سرحد پر جموں کے آر ایس پورہ میں سَب انسپکٹر عہدہ پر تعینات محمد امتیاز کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پوری مستعدی کے ساتھ ہندوستان کی حفاظت کر رہے تھے۔ سرحد پر دشمنوں کو منھ توڑ جواب دے رہے تھے، تبھی وہ دشمن کی طرف سے ہوئے حملے کی زد میں آ گئے۔ ان کی شہادت پر بیٹے محمد عمران کو بھی فخر ہے۔ محمد عمران کا کہنا ہے کہ ’’مجھے اپنے والد کی شہادت پر ناز ہے، ہم سبھی ملک کے لیے شہید ہونے والے ہر بہادر بیٹے کی شہادت کو سلام کرتے ہیں۔‘‘ عمران کا کہنا ہے کہ پاکستان کے ذریعہ دھوکہ سے ہندوستانی جوانوں کو مارا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اب اسی کی زبان میں جواب دیا جانا چاہیے، تاکہ شہیدوں کی شہادت بے کار نہ جائے۔