ٹرمپ کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان حیران کن، معاملے کو بین الاقوامی رنگ دینا ناقابل قبول: سچن پائلٹ
24
M.U.H
12/05/2025
نئی دہلی: کانگریس نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ بندی کے اعلان ٹرمپ کی جانب سے کیے جانے کو حیران کن قرار دیتے ہوئے سوال اٹھایا ہے کہ کیا حکومت ہند نے اس ثالثی کو تسلیم کیا ہے؟ اتوار کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران پارٹی کے سینئر لیڈر اور جنرل سکریٹری سچن پائلٹ نے کہا کہ حالیہ واقعات میں غیر معمولی تیزی آئی ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا اعلان دنیا بھر کے لیے حیرت کا سبب بنا۔
سچن پائلٹ نے کہا کہ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ امریکہ کے صدر نے سوشل میڈیا پر جنگ بندی کا اعلان کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے کہا تھا کہ یہ ان کا مسئلہ نہیں۔ تاہم صرف دو دن بعد، امریکی صدر، نائب صدر اور وزیر خارجہ نے یکے بعد دیگرے جنگ بندی کی بات کی اور بعد ازاں پاکستان اور ہندوستان کی طرف سے بھی اس کی تصدیق کر دی گئی۔
کانگریس لیڈر نے کہا، ’’یہ معاملہ داخلی نوعیت کا ہے اور اسے بین الاقوامی رنگ دینا قابلِ قبول نہیں۔ اگر امریکہ کے کسی بیان میں کشمیر کا ذکر آتا ہے، تو یہ انتہائی حساس اور تشویش ناک بات ہے۔ امریکی صدر نے یہ بھی کہا کہ یہ ہزاروں سال پرانا مسئلہ ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ تقسیم ہند کو ابھی 76 سال ہی ہوئے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ امریکہ کی طرف سے اس طرح کی مداخلت اور ثالثی کا اشارہ اس بات کو تقویت دیتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعے کو دوبارہ عالمی مسئلہ بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ آیا اس ثالثی کو ہندوستان نے قبول کیا اور اگر کیا تو کن شرائط پر؟
پائلٹ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پہلگام حملے اور اس کے بعد کی صورت حال پر پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا جائے تاکہ ملک متحد ہو کر اپنا مؤقف عالمی برادری کے سامنے پیش کرے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ 1994 میں کانگریس حکومت نے پارلیمنٹ میں ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں پی او کے کو واپس لینے کی بات کی گئی تھی اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اس قرارداد کو دہرا کر دنیا کو واضح پیغام دیں۔
سچن پائلٹ نے کہا کہ کانگریس ان شہریوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کرتی ہے جو سرحد کے قریب شیلنگ یا دہشت گردانہ حملوں میں جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ انہوں نے ہندوستانی فوج کی بہادری کو سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہمیں اپنی فوج پر فخر ہے، جس نے ہر موقع پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک کا دفاع کیا۔‘‘
پائلٹ نے مزید کہا کہ حکومت کو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا چاہیے، کیونکہ ہر پارٹی نے اختلافات بھلا کر حکومت کو دہشت گردی کے خلاف کارروائی میں مکمل حمایت دی تھی۔ انہوں نے زور دیا کہ اس بار جب آل پارٹی میٹنگ بلائی جائے تو وزیر اعظم کو خود موجود ہونا چاہیے تاکہ تمام فریقوں کو اعتماد میں لیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے فوری بعد بھی پاکستان کی طرف سے مسلسل جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں، جس سے اس اعلان کی ساکھ مشکوک ہو گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر جنگ بندی کے باوجود فائرنگ جاری رہی تو پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ مستقبل میں ایسی خلاف ورزیاں نہیں ہوں گی؟
پائلٹ نے کہا کہ پاکستان کا سیاسی اور فوجی ڈھانچہ ہندوستان سے بالکل مختلف ہے، اس لیے اس طرح کے جنگ بندی معاہدوں پر اعتماد کرنا مشکل ہے جب تک کہ واضح ضمانتیں نہ دی جائیں۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ان تمام سوالات کے جواب دے اور واضح کرے کہ کیا واقعی کسی بین الاقوامی دباؤ یا ثالثی کے تحت جنگ بندی کی گئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، اب تک ہماری گزشتہ کئی دہائیوں کی جو خارجہ پالیسی تھی، وہ بالکل واضح تھی۔ اس میں ثالثی، مذاکرات یا کسی تیسرے فریق کی شمولیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی، چاہے وزیر اعظم کوئی بھی ہو یا حکومت کوئی بھی ہو لیکن امریکہ کے بیان کے بعد ان تمام باتوں پر سوال اٹھنا لازمی ہو گیا ہے۔
اسی لیے میں صرف اتنی اپیل کروں گا کہ حکومت کو فوری طور پر ایک آل پارٹی میٹنگ بلانی چاہیے۔ اور ہمارے فوجی جوانوں نے گزشتہ دنوں میں جو کارنامہ انجام دیا ہے، ہمیں اس پر بہت فخر ہے۔ ہماری افواج کی طاقت، دلیری، مہارت، شجاعت، درستگی اور جس بے جگری سے انہوں نے پاکستان کو سبق سکھایا، اس پر ہمیں بے حد ناز ہے۔