حماس نے مزاحمتی قوت کو غیر مسلح کرنے کی کسی بھی کوشش کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے فلسطینی امور میں بیرونی مداخلت کے خلاف خبردار اور غزہ میں جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے لیے زیادہ مضبوط اور تفصیلی ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق یمنی چینل المسیرہ کو دیے گئے انٹرویو میں حماس کے سینئر رہنما اسامہ حمدان نے واضح کیا کہ حماس کبھی بھی اپنے ہتھیار کسی بیرونی طاقت کے حوالے نہیں کرے گی۔ مقاومت کسی بھی غیر ملکی قوت کی آمد کو مسترد کرتی ہے جو ہمیں غیر مسلح کرنے یا وہ ہتھیار چھیننے آئے جنہیں قابض طاقت جنگ کے میدان میں چھیننے میں ناکام رہی۔ ہتھیار ڈالنے کا تصور ہی مزاحمت کے لیے ناقابل قبول ہے۔
پریس ٹی وی کے مطابق، اسامہ حمدان نے اسرائیل کے ساتھ جاری جنگ بندی پر بھی بات کی، جس کی اسرائیلی حکومت بار بار خلاف ورزی کر رہی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ معاہدے کے آئندہ مرحلے میں ضمانتیں زیادہ واضح اور ذمہ داریاں زیادہ تفصیلی ہونی چاہئیں۔ غزہ معاہدے کے دوسرے مرحلے میں ضمانتوں کو زیادہ شفاف اور وعدوں کو زیادہ واضح ہونا چاہیے، کیونکہ اسرائیل ماضی کے معاہدوں کی بارہا خلاف ورزی کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ صہیونی حکومت نہ صرف اس معاہدے بلکہ بین الاقوامی معاہدوں کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتی رہی ہے۔ غزہ کا محاصرہ جاری رکھنا اور گزرگاہوں کو نہ کھولنا اس بات کی علامت ہے کہ دشمن غزہ پر دوبارہ حملہ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ محاصرے کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے سے فلسطینی مزاحمت کمزور نہیں ہوگی بلکہ صہیونی حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ کرے گی۔
امریکہ اور اسرائیل کی علاقائی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے اسامہ حمدان نے کہا کہ امریکہ خطے پر اپنی بالادستی مسلط کرنا چاہتا ہے، جس کی بنیاد صہیونی حکومت ہے۔ اگر مزاحمت کو غیر مسلح کر دیا جائے تو اسرائیل پورے خطے پر مکمل کنٹرول حاصل کر لے گا۔
واضح رہے کہ امریکہ کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان 10 اکتوبر 2025 کو جنگ بندی طے پائی تھی۔ معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت اسرائیل کو غزہ کی تمام گزرگاہیں کھولنا، خوراک اور امداد کی فراہمی یقینی بنانا اور لڑائی روکنا تھا، جس کے بدلے حماس نے تمام قیدیوں کی رہائی پر رضامندی ظاہر کی۔
تاہم حماس کی جانب سے معاہدے پر عمل کے باوجود اسرائیل نے غزہ پر حملے جاری رکھے اور بیشتر گزرگاہیں بند رکھیں، جس کے باعث انسانی امداد کی ترسیل شدید متاثر ہوئی۔