الہ آباد ہائی کورٹ کا شاہی عیدگاہ مسجد کو متنازع ڈھانچہ قرار دینے سے انکار، جنم بھومی فریق کو جھٹکا
17
M.U.H
04/07/2025
الٰہ آباد ہائی کورٹ نے شاہی عیدگاہ مسجد سے متعلق مقدمے میں ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے واضح کیا ہے کہ فی الحال اس مسجد کو متنازع ڈھانچہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ جسٹس رام منوہر مشرا کی سنگل بنچ نے یہ فیصلہ سنایا، جس سے جنم بھومی کا دعویٰ کرنے والے فریق کو جھٹکا لگا ہے۔
ہندو فریق کی جانب سے ایڈووکیٹ مہندر پرتاپ سنگھ نے مارچ 2025 میں عدالت میں ایک عرضی دائر کی تھی، جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ متھرا کی شاہی عیدگاہ مسجد کو متنازع ڈھانچہ قرار دیا جائے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ مسجد قدیم مندر کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی ہے۔
مقدمے میں عدالت نے 23 مئی کو سماعت مکمل کرنے کے بعد فیصلہ محفوظ رکھا تھا، جو اب سنا دیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ موجودہ شواہد کی بنیاد پر مسجد کو متنازع نہیں مانا جا سکتا اور اس کے لیے مزید قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔
ہندو فریق نے عدالت میں کئی تاریخی حوالہ جات، قدیم سیاحوں کی تحریریں اور بلدیاتی ریکارڈز کی عدم موجودگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ شاہی عیدگاہ مسجد کے حق میں نہ تو خسرہ-کھتونی ہے، نہ ہی ٹیکس ادا کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بجلی چوری کے مقدمے کا حوالہ دے کر مسجد کی حیثیت پر سوال اٹھایا۔
مہندر پرتاپ سنگھ نے یہ بھی کہا کہ جس طرح ایودھیا معاملے میں بابری مسجد کو متنازع ڈھانچہ قرار دے کر کارروائی کی گئی، ویسا ہی اصول یہاں بھی اپنایا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آثارِ قدیمہ کا سروے اگر کرایا جائے تو مقام کی اصل حقیقت سامنے آ جائے گی۔
عدالت نے ان دلائل کو سماعت کے بعد مسترد کرتے ہوئے کہا کہ صرف تاریخی بیانات یا دعووں کی بنیاد پر کسی عبادت گاہ کو متنازع قرار دینا ممکن نہیں۔ عدالت نے کہا کہ یہ ایک حساس معاملہ ہے اور اس میں قانون کے مطابق واضح ثبوت اور شفاف طریقۂ کار ضروری ہے۔
دوسری طرف شاہی عیدگاہ مسجد کے ذمہ داران نے مقدمے میں ہندو فریق کے دعووں کی سختی سے مخالفت کی اور کہا کہ یہ مسجد ایک تاریخی اور مسلسل عبادت میں آنے والی جگہ ہے، جسے غیر ضروری طور پر متنازع بنایا جا رہا ہے۔ اس فیصلے کے بعد فریقین کی آئندہ قانونی حکمت عملی پر نگاہیں مرکوز ہیں، تاہم عدالت کا موجودہ فیصلہ توازن اور ثبوت کی بنیاد پر سامنے آیا ہے۔