دہلی یونیورسٹی میں اسلام، پاکستان اور سیاسی تشدد سے متعلق نصاب ہٹانے کی سفارش، اساتذہ کا اعتراض
26
M.U.H
26/06/2025
دہلی یونیورسٹی میں ایم اے سیاسیات کے نصاب سے اسلام، پاکستان، چین اور سیاسی تشدد جیسے اہم موضوعات کو ہٹانے کی سفارش کی گئی ہے، جس پر یونیورسٹی کے کئی اساتذہ نے سخت اعتراض ظاہر کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی کی تعلیمی امور کی مستقل کمیٹی نے حالیہ اجلاس میں متعدد مضامین پر نظرثانی کی اور کچھ کو مکمل طور پر ہٹانے یا ان کی جگہ نئے مضامین شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔
مستقل کمیٹی کی رکن ڈاکٹر مونامی سنہا نے بتایا کہ ایم اے سیاسیات کے نصاب کی نظر ثانی کی گئی ہے۔ ان کے مطابق ’پاکستان اینڈ دی ورلڈ‘، ’موجودہ دنیا میں چین کا کردار‘، ’اسلام اور عالمی تعلقات‘، ’پاکستان: ریاست و سماج‘ اور ’مذہبی قوم پرستی اور سیاسی تشدد‘ جیسے مضامین کو یا تو مکمل طور پر ختم کیا جا رہا ہے یا نئے مواد سے تبدیل کیا جائے گا۔
ڈاکٹر سنہا کا کہنا ہے کہ ان موضوعات کو نصاب سے ہٹانا علمی تنزلی اور جیوپولیٹیکل سمجھ بوجھ کو کمزور کرے گا۔ ان کے مطابق پاکستان جیسے ملک کا تفصیلی مطالعہ ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے، جبکہ چین آج کے عالمی منظرنامے میں ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھرا ہے، اسے نظرانداز کرنا غلط ہوگا۔
یہ سفارش ایسے وقت میں آئی ہے جب یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے تمام شعبہ جات کو ہدایت دی تھی کہ وہ اپنے نصاب کا جائزہ لیں اور پاکستان کی ’غیر ضروری ستائش‘ کو نکالیں۔ یہ بیان اپریل میں جموں و کشمیر کے پہلگام میں ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد دیا گیا تھا۔
یونیورسٹی کی کمیٹی نے دیگر شعبہ جات پر بھی نظرثانی کی ہے۔ ایم اے جغرافیہ کے کورس میں داخلی تنازعات اور مذہبی تشدد پر مشتمل یونٹ کو ہٹانے کی سفارش کی گئی ہے۔ سماجی جغرافیہ کے پیپر میں درج ’ایس سی آبادی کی تقسیم‘ پر بھی اعتراض درج کیا گیا ہے۔
سوشیالوجی کے کورس میں مغربی مفکرین کارل مارکس، میکس ویبر اور ایمل دورخائم پر انحصار کو کم کرنے اور ہندوستانی مفکرین کو شامل کرنے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے علاوہ ہم جنس پرست خاندانوں پر ایک تحریر کو بھی ہٹانے کی تجویز دی گئی ہے، کیونکہ ہندوستان میں ہم جنس شادی ابھی قانونی نہیں ہے۔
ڈیموکریٹک ٹیچرز فرنٹ کی سیکریٹری آبھادیو نے اس تبدیلی کو ’اکیڈمک خودمختاری‘ پر حملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے سیاسی دباؤ میں کیے گئے فیصلے طلبہ کی علمی قابلیت پر منفی اثر ڈالیں گے۔ اس دوران، اکیڈمک کونسل کے منتخب رکن متھراج دھوسیا نے مستقل کمیٹی کے اختیارات پر بھی سوال اٹھایا ہے اور کہا ہے کہ وہ تجاویز دے سکتی ہے لیکن کسی مضمون کو براہِ راست ہٹانے کا اختیار نہیں رکھتی۔
اساتذہ کا کہنا ہے کہ اس پورے عمل میں علمی معیار کو نظرانداز کیا جا رہا ہے اور تعلیمی فیصلے سیاسی نظریات کی بنیاد پر لیے جا رہے ہیں، جو کہ یونیورسٹی کی علمی ساکھ کے لیے خطرناک ہے۔