ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ سے علما اور مجتہدین کا گہوارہ رہی ہے: نمائندہ ولی فقیہ ہندوستان
210
M.U.H
17/09/2025
ہندوستان میں نمائندہ ولی فقیہ حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر عبدالمجید حکیم الہی نے قم المقدسہ میں سربراہ حوزہ علمیہ ایران آیت اللہ اعرافی، ہندوستان میں رہبر معظم کے سابق و جدید نمائندے کی موجودگی میں ہندوستانی طلاب کے ساتھ فکری نشست سے خطاب کرتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے فرزند ارجمند امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کی۔
انہوں نے ہندوستانی علما، حاضرین اور مختلف علمی و ثقافتی انجمنوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ فلاسفہ نے وجود کی تین اقسام بیان کی ہیں۔
ان کے مطابق:
پہلی قسم وجود مادی ہے جو محدود اور ضعیف وجود ہے اور ایک وقت میں صرف ایک ہی جگہ پر رہ سکتا ہے۔ جیسے یہ دنیا، جہاں دیکھنے کے لیے آنکھ اور چلنے کے لیے پاؤں کی ضرورت ہے۔
دوسری قسم وجود مثالی ہے جو مجرد تو نہیں لیکن مادی زمان و مکان سے آزاد ہے۔ جیسے خواب میں روح کی مختلف جگہوں پر موجودگی؛ کبھی لکھنؤ، کبھی بمبئی، کبھی نجف۔ مرنے کے بعد بھی روح اسی عالمِ مثال میں منتقل ہوتی ہے۔
تیسری قسم وجود عقلی (وجود مجرد) ہے جو نہ زمانے سے محدود ہے نہ مکان سے۔ یہ کمال ہی کمال کا مظہر ہے اور کسی فعل کے لیے کسی آلے یا وسیلے کا محتاج نہیں۔ یہی وجود سید الشہداءؑ جیسے اولیا کا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسان اگر تمام حدیں توڑ دے اور اپنے وجود کو خدا کے وجود سے جوڑ دے تو وہ بھی ارتقا کے ذریعے عقلی اور وسیع وجود تک پہنچ سکتا ہے جو زمان و مکان سے ماورا ہے۔
ڈاکٹر حکیم الہی نے حجۃ الاسلام و المسلمین مہدی مہدوی پور کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے گزشتہ 15 برسوں میں ڈیڑھ سو سال کے برابر کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ ہم سب کو بھی ان کی راہ پر چلنے کی توفیق نصیب ہو۔
انہوں نے ہندوستان کے علمی وقار کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ جب صاحب جواہر نے اپنی مشہور کتاب جواہر الکلام تصنیف کی تو اس کی تصحیح اور اشاعت کی اجازت کے لیے ہندوستان بھیجا۔ ہندوستان میں ایسے عظیم مجتہدین اور علمائے کرام موجود تھے جن کی قبور آج بھی قبرستان غفران مآب میں ہیں۔ تقریباً 50 مجتہدین ایسے تھے جن کا علمی رسوخ مسلم تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہندوستان کی دینی و علمی تاریخ نہایت شاندار رہی ہے۔ بڑے بڑے حوزات علمیہ اور ان کی عمارتوں کے نقش و نگار دیکھ کر اس کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ بعض موضوعات پر، جیسے یہ بحث کہ آیا شب عاشور خیمہ امام حسینؑ میں پانی تھا یا نہیں، ہندوستان میں ڈھائی سو کتابیں لکھی گئیں۔