سپریم کورٹ نے پورے وقف قانون پر حکم امتناع دینے سے انکار کیا، چند دفعات پر روک
30
M.U.H
15/09/2025
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کے روز وقف قانون پر حکم امتناع دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس قانون کے حق میں آئینی حیثیت کا "قیاس" موجود ہے۔ تاہم عدالتِ عظمیٰ نے چند دفعات پر عمل درآمد روک دیا، جن میں وہ دفعہ بھی شامل ہے جس کے تحت صرف وہی شخص وقف قائم کر سکتا تھا جو گزشتہ پانچ برسوں سے اسلام پر عمل پیرا ہو۔چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس آگسٹین جارج مسیح پر مشتمل بنچ نے عبوری حکم سناتے ہوئے کہا کہ ہم نے ہر دفعہ کو بادی النظر میں پرکھا اور کوئی ایسا معاملہ نہیں پایا کہ جس کی بنیاد پر پورے قانون پر حکم امتناع دیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کج ہم نے یہ قرار دیا ہے کہ ہمیشہ کسی قانون کی آئینی حیثیت کے حق میں قیاس کیا جاتا ہے اور صرف نادر مواقع پر ہی اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ پورے ایکٹ کو چیلنج کیا گیا ہے لیکن بنیادی اعتراض دفعات 3(r)، 3C، 14وغیرہ پر تھا۔
1- عدالت نے اس دفعہ پر روک لگا دی جس کے مطابق صرف وہی شخص وقف قائم کر سکتا تھا جو پانچ برسوں سے اسلام پر عمل کر رہا ہو۔
2- اسی طرح اس دفعہ کو بھی معطل کر دیا گیا جس کے تحت حکومت کے نامزد افسر کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا کوئی وقف جائیداد سرکاری زمین پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے یا نہیں۔
3- عدالت نے یہ بھی ہدایت دی کہ جہاں تک ممکن ہو وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر مسلمان ہونا چاہیے، تاہم اس ترمیم پر حکم امتناع دینے سے انکار کر دیا جس کے تحت غیر مسلم کو بھی سی ای او بنایا جا سکتا ہے۔
4- عدالت نے مزید کہا کہ ریاستی وقف بورڈز اور مرکزی وقف کونسل میں غیر مسلم ارکان کی تعداد تین سے زیادہ نہیں ہو سکتی۔
تفصیلی فیصلہ تاحال زیر التواء ہے۔
سپریم کورٹ میں وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 پر سماعت کا پس منظر
مئی 2025 میں سپریم کورٹ نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 کی آئینی حیثیت کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں پر عبوری ریلیف کے حوالے سے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ ان درخواستوں میں کہا گیا تھا کہ نئے ترمیمی قانون کے تحت "وقف بائے یوزر" (Waqf by User) کا تصور ختم کر دیا گیا ہے اور پورے ملک میں وقف جائیدادوں کی رجسٹریشن اور درجہ بندی کے عمل میں بڑی تبدیلیاں متعارف کرائی گئی ہیں۔
چیف جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس اے جی مسیح پر مشتمل بنچ نے ان درخواستوں پر سماعت کی تھی۔ دورانِ سماعت درخواست گزاروں کی جانب سے سینئر وکلا کپل سبل، راجیو دھون اور ابھیشیک منو سنگھوی نے دلائل دیے، جبکہ مرکزی حکومت کی نمائندگی سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کی۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 15 ستمبر کو اپنے عبوری حکم میں پورے ایکٹ پر حکم امتناع دینے سے انکار کر دیا تھا، تاہم چند دفعات جیسے "پانچ برس سے اسلام پر عمل کرنے والے ہی وقف بنا سکیں گے" اور "سرکاری افسر کو قبضے سے متعلق فیصلے کا اختیار دینا" کو معطل کر دیا تھا، جبکہ باقی ایکٹ کو آئینی قیاس کے تحت درست قرار دیا۔