شدید احتجاج کے درمیان نیپالی وزیر اعظم کے پی شرما اولی عہدے سے مستعفی، بیرون ملک روانگی کی تیاری
26
M.U.H
09/09/2025
کھٹمنڈو: نیپال میں ’جین-زی‘ کے نام سے ابھری تحریک نے ملک کو بڑے سیاسی اور آئینی بحران میں دھکیل دیا ہے۔ سوشل میڈیا پر عائد پابندی کے خلاف شروع ہوا یہ احتجاج اب وزیراعظم کے پی شرما اولی کے استعفے اور پارلیمنٹ کی عمارت تک جا پہنچا ہے۔ حالات اس قدر بگڑ گئے کہ وزیراعظم اولی نے منگل کو اپنے عہدے سے استعفیٰ صدر کو پیش کر دیا۔ ذرائع کے مطابق اولی جلد ہی دبئی روانہ ہو سکتے ہیں۔
ابتدائی طور پر حکومت نے فیس بک، ایکس (سابق ٹوئٹر) سمیت 26 سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اس بنیاد پر پابندی لگائی کہ وہ رجسٹرڈ نہیں ہیں۔ تاہم عوامی ردعمل اتنا شدید ہوا کہ اگلی ہی رات پابندی ہٹا دی گئی۔ اس کے باوجود احتجاج کی آگ ٹھنڈی نہ پڑی بلکہ سیاسی قیادت کے خلاف بغاوت میں تبدیل ہو گئی۔
پیر کو کھٹمنڈو سمیت مختلف شہروں میں مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس کی فائرنگ، لاٹھی چارج اور آنسو گیس سے کم از کم 19 مظاہرین ہلاک ہو گئے جن میں ایک 12 سالہ طالب علم بھی شامل ہے، جبکہ 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ ان ہلاکتوں کے بعد عوامی غم و غصہ مزید بڑھ گیا اور مظاہرین نے وزیراعظم اور صدر کے ذاتی رہائش گاہوں پر حملہ کر کے انہیں آگ لگا دی۔ کئی وزیروں کو ان کے گھروں میں محصور کر دیا گیا جنہیں فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے ریسکیو کیا گیا۔
منگل کو حالات اس وقت سنگین ہو گئے جب ہزاروں مظاہرین پارلیمنٹ ہاؤس میں گھس گئے اور ایوان زیریں اور ایوان بالا دونوں کو آگ لگا دی۔ اس کے بعد پورا پارلیمنٹ کمپلیکس مظاہرین کے قبضے میں چلا گیا۔ مظاہرین نے نعرے لگائے، ’کے پی چور، ملک چھوڑ‘ اور ’بدعنوان لیڈروں کا احتساب کرو۔‘
اسی دوران وزیراعظم اولی نے اپنے دفتر میں ہجوم کے داخل ہونے کے بعد استعفیٰ دینے کا فیصلہ کیا۔ ان کے چار کابینہ وزراء پہلے ہی احتجاج کی شدت دیکھ کر مستعفی ہو چکے تھے۔ اولی کے استعفے کے لیے فوجی سربراہ اور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت نیپالی کانگریس نے بھی دباؤ ڈالا تھا۔
مظاہرین کے مطالبات میں صرف سوشل میڈیا کی آزادی نہیں بلکہ وسیع تر سیاسی اصلاحات شامل ہیں۔ ’جین-زی’ گروپ کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ وہ اظہارِ رائے کی مکمل آزادی، بدعنوانی کے خاتمے اور سیاسی رہنماؤں کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر مقرر کرنے کے حامی ہیں۔ اس گروپ نے ریڈٹ اور انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز کے ذریعے وزیروں اور بااثر شخصیات کے بچوں کی عیاشانہ زندگی کے ویڈیوز اور تصاویر عام کیں اور ان کے ذرائع آمدن پر سوال اٹھائے۔
فی الحال نیپال کی سڑکوں پر نوجوان ہاتھوں میں لاٹھیاں اور پتھر لیے گھوم رہے ہیں جبکہ پولیس اور فوج امن و امان بحال کرنے میں بے بس نظر آ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تحریک صرف سوشل میڈیا پابندی تک محدود نہیں بلکہ برسوں سے چلے آ رہے سیاسی عدم استحکام اور کرپشن کے خلاف عوامی بغاوت کی شکل اختیار کر گئی ہے۔