تبدیلی مذہب قانون پر یوپی سرکار سے سپریم کورٹ نے جواب مانگا
42
M.U.H
16/07/2025
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے بدھ کے روز اتر پردیش حکومت سے 2024 میں ترمیم شدہ مذہب کی غیر قانونی تبدیلی سے متعلق قانون کے بعض دفعات کے خلاف دائر ایک عرضی پر جواب طلب کیا ہے۔ جسٹس وکرم ناتھ اور جسٹس سندیپ مہتا پر مشتمل بنچ نے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اس پر جواب مانگا ہے۔
عدالت نے اس عرضی کو اسی نوعیت کی دیگر عرضیوں کے ساتھ جوڑ کر سماعت کے لیے فہرست میں شامل کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ لکھنؤ کی رہائشی ماہرِ تعلیم روپ ریکھا ورما اور دیگر کی جانب سے دائر کی گئی عرضی پر سماعت کر رہی تھی، جس میں اتر پردیش حکومت کے ذریعے مذہب کی تبدیلی سے متعلق ترمیم شدہ قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔
عرضی گزاروں نے 2024 میں ترمیم شدہ اتر پردیش غیر قانونی مذہب تبدیلی انسداد ایکٹ (Uttar Pradesh Prohibition of Unlawful Religious Conversion Act) کی کچھ دفعات کو "مبہم اور حد سے زیادہ وسیع" قرار دیا ہے اور دلیل دی ہے کہ ان دفعات کی غیر وضاحت شدہ نوعیت شہریوں کی اظہارِ رائے کی آزادی اور مذہبی تبلیغ و اشاعت کے بنیادی حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔
اتر پردیش حکومت نے یہ قانون مبینہ جبری یا دھوکہ دہی پر مبنی مذہب کی تبدیلیوں کو روکنے کے لیے متعارف کروایا تھا۔ تاہم، متعدد انسانی حقوق کی تنظیمیں، ماہرین تعلیم اور سماجی کارکن اس قانون کو آئین کی دفعہ 25 (مذہب کی آزادی) کے خلاف مانتے ہوئے اسے چیلنج کر رہے ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ قانون ان افراد کو ہدف بناتا ہے جو باہمی رضامندی سے مذہب تبدیل کرتے ہیں، خاص طور پر بین المذاہب شادیوں میں، اور اس کے نتیجے میں اقلیتی برادریوں پر خوف و ہراس کا ماحول بن سکتا ہے۔ سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت عرضیاں دراصل اس قانونی فریم ورک کو چیلنج کر رہی ہیں تاکہ یہ طے ہو سکے کہ آیا ایسے قوانین آئین ہند کی روح کے مطابق ہیں یا نہیں۔
مزید کارروائی میں، عدالت اتر پردیش حکومت کے جواب کے بعد اس قانون کے جواز اور اس کی حدود پر آئینی تشریح کرے گی۔ یہ معاملہ مذہبی آزادی، ریاست کی حدود اور فرد کے بنیادی حقوق جیسے اہم آئینی سوالات کو چھو رہا ہے۔