مسجد اقصیٰ کی نابودی اور فلسطین پر قبضہ اسرائیل کا ہدف ہے:سید عبدالمالک الحوثی
62
M.U.H
30/05/2025
یمن کی مقاومتی تحریک "انصار الله" کے سربراہ "سید عبدالمالک الحوثی" نے کہا کہ جنگ کے 600 روز گزرنے کے باوجود اسرائیل ابھی تک غزہ کے لوگوں کی نسل کشی جاری رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بھی ہم فلسطینی عوام کو درپیش المیے کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ یہ مسائل 77 سالہ ماضی رکھتے ہیں۔ ایک فلسطینی ڈاکٹر کے 9 بچوں پر اسرائیلی حملے جیسے سانحوں کا فلسطینی عوام کو کئی سالوں سے سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر گزشتہ شب فلسطینی مہاجرین کو نشانہ بنایا اور صیہونی مذموم سوچ کی بنیاد پر ان حملوں کا مرکز بچے ہوتے ہیں۔ سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ صہیونی ذہنیت کو فلسطینی عوام اور فلسطینی سرزمین میں ان کے وجود کا مسئلہ ہے۔ اسلئے صیہونی چاہتے ہیں کہ فلسطینی عوام کے وجود کو ختم کر دیں۔ انہوں نے انسانی امداد کی تقسیم کے حوالے سے امریکہ و اسرائیل کے شیطانی منصوبے کا پردہ چاک کیا۔ انہوں نے کہا کہ امداد کی تقسیم کا منصوبہ ایک مکارانہ و فریب کارانہ چال ہے جس کا ہدف غزہ کی پٹی میں "قحط کی انجیئنرنگ" ہے۔ اسرائیل اس طرح کے اقدامات کے ذریعے لاکھوں فلسطینیوں کو ایک تنگ جگہ میں جمع کرنا چاہتا ہے جہاں وہ صرف اپنی بھوک مٹانے کے بارے میں سوچیں۔
سید عبدالمالک الحوثی نے کہا کہ دشمن ایسی صورت حال میں غذا تقسیم کرنے کا ڈھونگ رچا رہا ہے جب ہزاروں کنٹینرز غزہ سے باہر اس پٹی میں جانے کے لئے منتظر ہیں جب کہ ان کنٹینرز میں موجود غذائی مواد گل سڑ رہا ہے۔ انہوں نے انسانی امداد کی تقسیم کے میکانزم کو دکھاوا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی اعتبار سے یہ میکانزم ناقابل قبول ہے اور کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔ اگر کوئی اس میکانزم کو قبول کرے گا چاہے وہ اقوام متحدہ ہو یا کوئی اور ادارہ، تو ان اداروں کے منشور اور انسانی حقوق کے احترام پر سوال اٹھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ قحط کے بحران کا ناجائز استعمال غزہ میں انسانیت کے خلاف جنگی جرم ہے۔ سیدِ الحوثی نے مزید وضاحت کے ساتھ کہا کہ اسرائیل اب بھی غزہ کے تمام حصوں کو نشانہ بنا رہا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کو جبری نقل مکانی پر مجبور کرنا اور غزہ پر مکمل قبضہ کرنا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی کنارہ بھی صیہونی عتاب کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں صیہونی رژیم نے اعلان کیا کہ وہ مغربی کنارے کے بعض علاقوں پر اپنی مزید ناجائز کالونیوں کی تعمیر کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ اس علاقے پر تسلط کو مزید وسعت دی جا سکے۔ اس کے ساتھ ساتھ غاصب صیہونی آباد کار، فلسطینیوں کے گھروں اور ان کے باغات و فصلوں کو جلانے کا ایک اندوہناک سلسلہ شروع کئے ہوئے ہیں۔
یمن میں انقلاب کے روح رواں نے کہا کہ صیہونیوں کے ہاتھوں بیت المقدس پر قبضہ امت اسلامی کی تلخ ترین یادوں میں سے ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اس سنگین سانحے کی یاد کے موقع پر اپنے مقدسات کی بے توقیری کے خطرے کا احساس کریں۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی صورت حال کا جائزہ لیں اور مسجد اقصیٰ کو درپیش بڑھتے خطرات پر نگاہ رکھیں۔ کیونکہ اسرائیل اپنے معاندانہ اقدامات کے ذریعے صرف اور صرف مسجد اقصیٰ کی تباہی چاہتا ہے۔ اسرائیل اپنے ان عزائم کا برملا اظہار کرتا ہے اور اس کے لئے اقدامات کر رہا ہے۔ مسجد کے نیچے اور اطراف میں جو کھدائی اور سرنگیں نکالی جا رہی ہیں ان کا مقصد صرف اس مقام کو تباہ کرنا ہے۔ سرنگوں کی تعداد 27 تک پہنچ گئی ہے اور صہیونی کوشش کر رہے ہیں کہ کوئی ایسا کام کریں جس سے اس مسجد کا کچھ نہ کچھ حصہ منہدم ہو۔ انہوں نے غزہ کی حمایت میں اپنی کارروائیوں کی تفصیلات بتائیں۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ ہم نے رواں ہفتے اسرائیل پر 14 ہائپر سونک اور بیلسٹک میزائل داغے۔ ان کارروائیوں میں یافا، حیفا، عسقلان اور ام الرشراش کو نشانہ بنایا گیا۔ دوسری جانب بحیرہ احمر ابھی تک اسرائیل کے لئے بند ہے۔
انصار الله کے سربراہ نے یمنی حملوں کے جواب میں اسرائیل کی حمایت کرنے پر بعض عرب ممالک کو مورد تنقید ٹہرایا۔ انہوں نے کہا کہ جو بھی عرب و اسلامی حکومتیں اس طرح کے اقدامات کر رہی ہیں وہ اسلام سے خیانت کر رہی ہیں۔ ان اقدامات کا مطلب صیہونی رژیم کے جرائم میں شریک ہونا ہے۔ عرب و اسلامی حکومتوں کے ان اقدامات کا مقصد غزہ کے عوام کی حمایت میں ہمارے حملوں کی تاثیر کو کم کرنا ہے۔ سید عبدالمالک الحوثی نے اس بات پر زور دیا کہ صیہونی سازشیں اور منصوبے تمام مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ سازشیں صرف مسجد اقصیٰ کی تخریب تک ہی محدود نہیں بلکہ اس منصوبے میں مکہ، بیت اللہ، شعائر حج اور مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ بہرحال ملت فلسطین نے اپنی ثابت قدمی سے ان صیہونی عزائم کے خلاف اہم کردار ادا کیا۔ فلسطینیوں کی ثابت قدمی، اسرائیل کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ شمار ہوتی ہے۔ اس دوران سید الحوثی نے غزہ میں صیہونی فورسز کے خلاف القسام بریگیڈ کے 9 اہم حملوں کا ذکر کیا۔ اس ضمن میں انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ اسرائیل نے اپنی کئی پلٹن مکمل طور پر غزہ میں تعینات کر رکھی ہیں لیکن اس کی فوج نہایت کمزور ہے۔ جسے مقاومت اسلامی کی ناقابل بیان ثابت قدمی اور استقامت کا سامنا ہے۔
تاہم دشمن کی کوشش ہے کہ وہ نسل کشی، قحط، ہسپتالوں پر حملے اور جبری نقل مکانی کے منصوبوں کے ذریعے اپنی شکست کا ازالہ کرے۔ انہوں نے امریکہ کی جانب سے صیہونی رژیم کی مالی اور عسکری امداد کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ امریکی کانگریس کے کئی ارکان چاہتے ہیں کہ فلسطینی عوام پر ایٹم بم گرا دیا جائے۔ میں یہاں ایک نقطہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اگر اسلامی ممالک عسکری لحاظ سے فلسطینی مقاومت کی مدد کرتے تو آج یہ صورتحال نہ ہوتی۔ شام کی صورتحال پر انصار اللہ کے سربراہ نے کہا کہ شام پر اسرائیلی حملوں کا تسلسل تمام مسلمانوں کے لیے ایک درس ہے۔ شام میں ہونے والے واقعات اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ صیہونی جارحیت سے کسی کو بھی معافی نہیں۔