محبّتِ وطن پر اعتراض، دہشت گردی پر خاموشی؟ مسلم قیادت نے مولانا مدنی کی دوغلی سیاست بے نقاب کر دی
11
M.U.H
02/12/2025
نئی دہلی :مولانا محمود مدنی نے ایک بار پھر یہ کہتے ہوئے تنازعہ کھڑا کر دیا کہ “وندے ماترم اسلام کے خلاف ہے۔” یہ بیان سامنے آتے ہی ملک بھر میں بحث چھڑ گئی۔ لیکن اس بار سب سے سخت جواب باہر سے نہیں بلکہ خود مسلم برادری کے اندر سے آیا۔ نامور مسلم دانشوروں، سماجی تنظیموں اور متعدد مذہبی شخصیات نے متفقہ طور پر کہا کہ ایسے بیانات مسلمانوں کے کسی فائدے کے نہیں—یہ ہماری شبیہ کو نقصان پہنچاتے ہیں اور نوجوان نسل کو گمراہ کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان اب خوف کی سیاست نہیں چاہتے۔ انہیں تعلیم، روزگار، سلامتی اور برابری کے مواقع چاہئیں۔
مسلم راشٹریہ منچ (MRM) کے قومی ترجمان شاہد سعید نے کہا کہ مولانا مدنی کا بیان مسلمانوں کو قومی دھارے سے دور کرنے والا ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہندوستانی مسلمان دنیا کے سب سے محفوظ اور باعزت مسلم طبقات میں شمار ہوتے ہیں۔ ملک کی فوج، بیوروکریسی، عدلیہ، کھیل، سائنس اور فنون—ہر شعبے میں مسلمان نوجوان نمایاں کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ ایسے میں بار بار خوف اور علیحدگی کی کہانی پھیلانا صرف نفرت کو بڑھاتا ہے۔ شاہد سعید نے واضح طور پر کہا کہ “وندے ماترم پر سوال اٹھانا ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد اور بھارت ماتا کے احترام کو ٹھکرانے کے مترادف ہے۔ اس میں کہیں شرک نہیں—یہ تو صرف اپنی سرزمین کی محبت ہے، جیسی محبت رسولِ اکرم ﷺ نے مدینہ کی سرزمین کے لیے دکھائی تھی۔”
ایم آر ایم کی قومی کوآرڈینیٹر اور خواتین قیادت کی نمایاں آواز ڈاکٹر شالینی علی نے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو ترقی کے لیے تعلیم، صحت، ہنر مندی اور روزگار کی ضرورت ہے—ایسے تنازعات کی نہیں جو ہمیں سماج کے باقی حصوں سے تصادم کی طرف لے جائیں۔ انہوں نے صاف کہا کہ جو لوگ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان دوریاں بڑھاتے ہیں، وہ دونوں قوموں کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ہندوستانی مسلمانوں کی روایت امن، محنت اور وطن کے ساتھ کھڑے ہونے کی رہی ہے—اور کوئی بھی شدت پسندانہ بیان اس روایت کو توڑ نہیں سکتا۔
قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات (NCMEI) کے قائم مقام چیئر مین ڈاکٹر شاہد اختر نے کہا کہ اسلام اور حب الوطنی ایک دوسرے کے مخالف نہیں بلکہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔ اسلام انصاف، امن اور بھائی چارے کا پیغام دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وندے ماترم کے نام پر تنازعہ کھڑا کرنا محض مسلمانوں کو غلط راستے پر ڈالنے کی کوشش ہے۔ اصل چیلنج دہشت گردی، شدت پسندی، غربت اور پسماندگی ہے—نہ کہ قومی ترانہ۔
جمعیت حمایت الاسلام کے ممتاز عالم مولانا قاری ابرار جمال قاسمی نے اور بھی سخت سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر مولانا مدنی کو واقعی مسلمانوں کی فکر ہے تو وہ دہشت گردی کے خلاف کھل کر بات کریں۔ “دہشت گردی اسلام کو سب سے زیادہ بدنام کرتی ہے۔ دہشت گردی پر خاموشی اور وندے ماترم پر شور—یہ دوہرا معیار کیوں؟” قاری جمال نے کہا کہ کروڑوں ہندو بھائیوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچا کر ہم اپنی شبیہ بہتر نہیں بنا سکتے، بلکہ ملک سے دوری ہی بڑھے گی۔
صوفی بزرگ اور سجادہ نشین شاہ سید زیارت علی ملنگ حقانی نے اس پوری بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ اسلام کی تہذیب، شناخت اور بنیادی پیغام—سب محبت، رواداری اور انسانیت پر قائم ہیں۔ دین کا راستہ جوڑنے کا ہے، توڑنے کا نہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی اصل لڑائی غربت، بے روزگاری، جہالت اور سماجی پسماندگی سے ہے—کسی قومی نشان سے نہیں۔ جو بھی بیان معاشرے کو تقسیم کرے، وہ نہ اسلام کا ہے، نہ ہندوستان کا، اور نہ مسلمانوں کے فائدے کا۔