راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا ہے کہ ہندوستان کا عالمی مقام اس لیے بلند ہوا ہے کیونکہ ملک اب جہاں اپنی قوت دکھانے کی ضرورت ہوتی ہے وہاں قوت کا اظہار کر رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج دنیا ہندوستان کے وزیراعظم کی بات غور سے سنتی ہے کیونکہ دنیا اب ہندوستان کی بڑھتی ہوئی صلاحیتوں کو تسلیم کر رہی ہے۔
آر ایس ایس کے صد سالہ پروگرام کے موقع پر پیر کے روز خطاب کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ آج دنیا ہندوستان کے وزیراعظم کی سنتی ہے۔ کیوں؟ کیونکہ اب ہندوستان اپنی طاقت وہاں دکھا رہا ہے جہاں دکھانے کی ضرورت ہے۔ اسی لیے دنیا نے سمجھنا شروع کیا ہے۔ اس سے پہلے ہفتے کے روز آر ایس ایس کے سربراہ نے کہا تھا کہ دوسروں ممالک کے مقابلے میں ’’ہندوستان میں نیشنلزمیت کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘ اور آر ایس ایس کو محض ’’نیشنلزم پرست‘‘ تنظیم کہنا اس کی اصل فطرت کو سمجھنے میں غلطی ہے۔
ناگپور کتاب میلے میں خطاب کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ لوگ ہمیں نیشنلزم پرست کہتے ہیں۔ ہمارا کسی سے جھگڑا نہیں، ہم جھگڑوں سے دور رہتے ہیں۔ یہ ہماری فطرت کا حصہ نہیں۔ ہماری فطرت اور ہماری تہذیب ساتھ مل کر ترقی کرنے کی ہے۔ یہ بہت سے بیرونی ممالک میں نہیں ہے۔
انہوں نے ہندوستانی تصورِ ’’نیشنلزم‘‘ اور مغربی تصورِ ’’نیشنلزم‘‘ کے فرق کو بھی واضح کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا ’نیشنلزم‘ کا خیال ان کی ’نیشنلزم‘ کے خیال سے بالکل مختلف ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ ’نیشنلزم‘ کا انگریزی میں ترجمہ کیا ہو۔ انہوں نے اسے ’نیشن‘ کہا اور اسے ’نیشنلزم‘ کا نام دیا۔ اب ہمیں اپنے الفاظ نہیں معلوم، لیکن ان کے الفاظ معلوم ہیں۔
بھاگوت نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان میں نیشنلزمیت کبھی کوئی مرکزی مسئلہ نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ قوم پرستی ہندوستان میں مسئلہ نہیں ہے، ہمارا ’نیشنلزم‘ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ ہم قومیت کے نظریے پر یقین رکھتے ہیں، قوم پرستی پر نہیں۔ ہم قومیت اور نیشنلزم تشخص دونوں پر یقین رکھتے ہیں، ’نیشنلزم ادویت‘ ممکن ہے۔
انہوں نے قوم پرستی کے عالمی اثرات پر بھی بات کی اور کہا کہ اس کی وجہ سے دنیا میں بڑے تنازعات پیدا ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہم قوم پرستی کی بات کرتے ہیں تو وہ مغربی قعم پرستی کے اس تصور سے جڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے دو عالمی جنگیں ہوئیں۔ نیشنلزم کے غرور کی وجہ سے یہ سب ہوا۔ لیکن ہمارا ’نیشنلزم‘ انا سے جڑا نہیں۔ یہ انا کے تحلیل ہونے کے بعد وجود میں آیا… لوگ خود کو ایک سمجھتے تھے۔