ہرِیانہ کے سرکاری اسکولوں میں گیتا کے شلوکوں کا پاٹھ لازمی
35
M.U.H
19/07/2025
گروگرام: ہرِیانہ حکومت نے ریاست کے تمام سرکاری اسکولوں میں ایک اہم فیصلہ لیتے ہوئے صبح کی دعائیہ اسمبلی کے دوران شریمد بھگود گیتا کے شلوکوں کا پاٹھ لازمی کر دیا ہے۔ اس اقدام کی باضابطہ شروعات بدھ کے روز سروپلی رادھا کرشنن لیب اسکول (واقع بورڈ کیمپس) سے ہوئی، جہاں طلبہ نے اجتماعی طور پر گیتا کے شلوک پڑھے۔
ریاست کے اسکول ایجوکیشن بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر (پروفیسر) پون کمار نے تمام اسکول سربراہان کو ایک سرکاری مراسلہ جاری کرتے ہوئے ہدایت دی ہے کہ وہ صبح کی اسمبلی میں گیتا کے شلوکوں کا ورد یقینی بنائیں۔ ان کے مطابق یہ قدم بچوں کی ہمہ جہتی شخصیت سازی، روحانی بیداری اور اخلاقی اقدار کے فروغ کے لیے نہایت ضروری ہے۔
اس موقع پر معروف ہندو مذہبی رہنما گیانانند جی مہاراج نے آن لائن آشیرواد دیتے ہوئے بچوں کو شلوکوں کا مطلب سمجھنے اور انہیں زندگی میں برتنے کی تلقین کی۔ وہیں شری کرشن کرپا سمیتی کے صحت ونگ کے ضلعی صدر ڈاکٹر ونود انچل نے طلبہ کو روزانہ گیتا پاٹھ کرنے کی ترغیب دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ سمیتی ریاست بھر کے اسکولوں میں گیتا پاٹھ کو فروغ دینے کی مہم چلا رہی ہے۔
چیئرمین ڈاکٹر پون کمار نے گیتا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے کہا، گیتا صرف ایک مذہبی کتاب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک سلیقہ سکھاتی ہے۔ اس کے شلوکوں سے طلبہ میں روحانی اور اخلاقی شعور بیدار ہوگا۔ اگرچہ حکومت کے اس فیصلے کو کچھ والدین اور اساتذہ بچوں میں تہذیبی و اخلاقی اقدار کے فروغ کے طور پر دیکھ رہے ہیں، وہیں دوسری جانب کئی افراد اس پر سوال بھی اٹھا رہے ہیں۔
ان کے مطابق سرکاری تعلیمی اداروں میں کسی خاص مذہبی کتاب کو لازمی بنانا ہندوستان کے سیکولر آئین کی روح کے خلاف ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ تعلیمی ادارے اگر روحانیت یا اخلاقیات پر زور دینا چاہتے ہیں تو انہیں تمام مذاہب کی تعلیمات سے یکساں طور پر روشناس کرانا چاہیے، نہ کہ کسی ایک مخصوص مذہب کو بڑھاوا دیا جائے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک بھر میں تعلیمی نظام کو "بھارتی قدروں" سے جوڑنے کی مسلسل کوششیں جاری ہیں۔
اس پس منظر میں گیتا شلوک پاٹھ کو صرف ایک روحانی قدم سمجھنا ممکن نہیں، بلکہ یہ تعلیمی اور مذہبی حدود کے بیچ ایک نیا بحث طلب موضوع بنتا جا رہا ہے۔ ہرِیانہ میں گیتا شلوکوں کے لازمی پاٹھ کے اس فیصلے نے تعلیم، مذہب اور آئینی اقدار کے مابین تعلق پر نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ یہ قدم روحانیت کے نام پر یکجہتی پیدا کرتا ہے یا مذہبی امتیاز کے نئے سوالات کو جنم دیتا ہے۔