نومنتخب ایرانی صدر کا امریکہ کو جوہری معاہدے میں واپسی اور وعدوں کو نبھانے پر زور
1025
M.U.H
21/06/2021
نومنتخب ایرانی صدر علامہ سید ابراہیم رئیسی نے امریکہ کیجانب سے جوہری معاہدے میں واپسی و نیز اس کے کیے گئے وعدوں کے نفاذ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایرانی عوام کا واشنگٹن سے مطالبہ یہ ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر پورا اترے۔
ان خیالات کا اظہار علامہ رئیسی نے آج بروز پیر کو اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران، صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا؛ جس میں تقریبا 400 صحافیوں اور فوٹوگرافرز نے حصہ لیا تھا۔
انہوں نے مزید کہا کہ خارجہ پالیسی کے شعبے میں دنیا کو جاننا ہوگا کہ صدراتی الیکشن میں ایرانی عوام کی شاندار شرکت کی وجہ سے اب صورتحال بدل گئی ہے اور دنیا کو نئی صورتحال کا سامنا ہے۔
نو منتخب ایرانی صدر نے کہا کہ دنیا کو جاننا ہوگا کہ ایرانی عوام کیخلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کی پالیسی کو شکست کا سامنا ہوا ہے؛ لہذا ان کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری قوم نے دباؤ کے سامنے مزاحمت کرنے کا مظاہرہ کیا؛ تو دنیا کو جاننا ہوگا کہ ہماری خارجہ پالیسی کا آغاز جوہری معاہدے سے نہیں ہوگا اور اس پر تک بھی محدود نہیں رہی گی۔
رئیسی نے کہا کہ ہم دنیا کے سارے ممالک سے تعاون کو اپنی خارجہ پالیسی کا ایک متوازن اصول کے طور پر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے ویانا جوہری مذاکرات اور جوہری معاہدے کی بحالی سے متعلق کہا کہ کوئی بھی مذاکرہ جس میں عوام کے مفادات کی فراہمی ہو، کی حمایت کریں گے لیکن عوام کی معاشی صورتحال کو اس مذاکرات سے نہیں جوڑتے ہیں؛ نیز اس مذاکرات کو طویل بنانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
رئیسی نے اس بات پر زور دیا کہ ہم اس مذاکرات کو تعلل کا شکار ہونے کی اجازت نہیں دیں گے اور ہرکسی اجلاس سے ایک تعمیری نتیجہ نکالنا ہوگا؛ نتیجہ ہماری توجہ کا مرکز ہے اور اس کا اثر ایران کی عظیم قوم پر پڑنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایرانی عوام کے مفادات کی فراہمی، پابندیوں کو دور کرنے و نیز فریقین کے بیانات اور اقدامات کی توثیق دینے کے سلسلے میں ان سے تعلقات کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔
انہوں نے پابندیوں، دشمن کی نفسیاتی جنگ اور معاشی مشکلات کے باوجود صدراتی الیکشن میں ایرانی عوام کی شاندار شرکت کے پیغام کو بانی اسلامی انقلاب حضرت امام خمینی (رہ) اور شہدا بالخصوص شہید جنرل سلیمانی کا راستہ جاری رکھنا، قرار دے دیا۔
*** امریکی صدر سے ملاقات نہیں کروں گی
نو منتخب ایرانی صدر نے اپنے امریکی ہم منصب سے ملاقات سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ وہ جوبائیڈن سے ملاقات نہیں کریں گے۔
انہوں نے جوبائیڈن کی حکومت سے مذاکرات سے متعلق پوچھے گئے ایک اور سوال کے جواب میں کہا کہ کیوں باییڈن کی حکومت اپنے کیے گئے وعدوں پر عمل نہیں کرتی ہے؟ میرا امریکی حکومت کا سنجیدہ مشورہ یہ ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے وعدوں کا نفاذ کرے اور ایران کیخلاف عائد پابندیوں کو اٹھائے۔
رئیسی نے کہا کہ ایرانی قوم کی جوہری معاہدے سے اچھی یادیں نہیں ہے اور اس کی وجہ بھی امریکی وعدہ خلافی ہے؛ ہم اس بات پر زوردیتے ہیں کہ امریکہ پوری شفافیت سے اپنے وعدوں کو نبھائیں۔
نو منتخب ایرانی صدر نے مزید کہا کہ علاقائی مسائل اور ایرانی میزائل پروگرام پر مذاکرات کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
انہوں نے امریکہ کو پابندیوں کی منسوخی پر مجبور کرنے سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ ہم نے اب تک قانون کے فریم ورک کے اندر اقدامات اٹھائے ہیں لیکن وہ کیوں ہماری پُرامن جوہری سرگرمیوں کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرتے ہیں اور وہ بھی ایک ایسا وقت جب ان سب کا اعتراف ہے کہ ایران جوہری سرگرمیوں کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
***مغربی ممالک ان لوگوں کی پناہ گاہ ہیں جنہوں نے 17 ہزار افراد کو قتل کیا
نو منتخب ایرانی صدر نے کہا کہ انسانی حقوق کے دعویدار ممالک سے میرا سوال یہ ہے کہ شہید بہشتی، رجائی اور باہنر کے قاتلوں نے آج کچھ مغربی ممالک میں پناہ کیوں لی؟ اور انہیں رائے عامہ اور میڈیا کو جواب دینا پڑا کہ ان کا ملک ان لوگوں کی پناہ کیوں دی ہے جنہوں نے باضابطہ اعلان کردیا ہے کہ وہ 17 ہزار افراد کا قتل کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ آیت اللہ ڈاکٹر بہشتی جامع شخصیت کے حامل تھے اور ان کی زندگی کا ایک خاص مظہر اخلاص، اخلاقیات، حق کی تلاش اور عقلیت تھا اور وہ عوام کی طرف زیادہ توجہ دیتے تھے اور یہ صرف ظاہری طور پر نہیں بلکہ عملی طور پر تھی۔
رئیسی نے کہا کہ وہ لوگوں اور نظام میں موثر میکانزم کی قدر اور توجہ دیتے ہیں؛ آیت اللہ بہشتی ان شخصیات میں شامل تھے جنہوں نے نظام کیلئے ڈھانچے کی پیروی کی اور میں اس ڈھانچے کو ملک میں انقلابی نظم و نسق کیلئے اہم اور موثر سمجھتا ہوں۔
نو منتخب ایرانی صدر نے ایران ور چین سے تعلقات سے متعلق کہا کہ اسلامی انقلاب کی فتح کے آغاز سے ہی ایران اور چین کے اچھے تعلقات ہیں اور دونوں ممالک کے مابین بہت سی صلاحیتیں موجود ہیں اور ہم یقینی طور پر ان صلاحیتوں کی بحالی کی کوشش کریں گے اور خارجہ پالیسی کے میدان میں، دونوں ممالک کے مابین جامع منصوبے پر عمل درآمد یقینی طور پر ایجنڈے میں شامل ہوگا۔