بارہویں صدی ہجری میں مجدد مذہب امامیہ
غفراں مآب ہند حضرت علامہ مولانا سید دلدار علی نقوی نصیر آبادی رحمتہ اللہ علیہ
تحریر: سید العلماء علا مہ سید علی نقی النقوی
نام و نسب
مولانا سید علی معروف بہ دلدار علی ابن سید محمد معین ابن سید عبد الھادی نصیر آبادی رح کا تعلق نقوی سادات سے تھا ۔ آپ کا سلسلہ نسب امام زادہ طاہر بن جعفر الزکی بن امام علی نقی علیہ السلام سے ملتا ہے ۔
آپ کے ایک مورث اعلیٰ سید نجم الدین سبزوار سے سالار مسعود غازی کی نصرت کے لئے ایک فوج کے سردار کی حیثیت سے ہندوستان تشریف لائے اور ضلع رائے بریلی میں قصبہ ودیا نگر کو فتح کرکے اسکا نام جائے عیش رکھا جو کثرت استعمال سے جائس مشہور ہو گیا پھر آپ ہی کی اولاد میں سے سید زکریا نے قلعہ پٹاک پور کو مسخر کر کے اسکا نام اپنے بزرگ سید نصیر الدین کے نام پر نصیر آباد رکھا ۔
ولادت، نشو ونما اور طالب علمی
اسی نصیر آباد میں 1166 ہجری میں ایک شب جمعہ کو جناب دلدار علی صاحب کی ولادت ہوئی اور پھر وہیں نشوو نما اور ابتدائی تعلیم حاصل ہوئی ذوق علم قدرت کی طرف سے بچپن ہی میں بیچین کئے ہوئے تھا اور اس تشنگی کو دور کرنے کے لئے وطن کی سر زمین بے آب نظرآتی تھی اسی لئے مسافرت اختیار کی اور اس وقت کہ جب ذرائع آمد و رفت دشوار تھے ہندوستان کے مختلف شہروں کا سفر کر کے سندیلہ میں شارح مسلم ملا حمد اللہ کے صاحبزادے ملا حیدر علی سے الہ آباد میں سید غلام حسین دکنی سے رائے بریلی میں مولوی باب اللہ شاگر د ملا حمد اللہ سے صرف و نحو معانی و بیان وغیرہ اور علوم عقلیہ منطق و فلسفہ و ریاضی کی تکمیل کی پھر فیض آباد تشریف لے گئے اور وہاں بحر العلوم مولوی عبد العلی صاحب سہالوی سے بعض مسائل عقلیہ پر مباحثہ ہوا وہاں سے لکھنؤ تشریف لائے ۔یہاں اسوقت نواب آصف الدولہ مرحوم کی حکومت تھی اور نواب سرفراز الدولہ مرزا حسن رضا خاں کا اقتدار تھا ۔انہیں احساس ہوا کہ ہندوستان میں اب تک کوئی شیعہ عالم ایسا نہیں ہوا جو درجۂ اجتہاد پر فائز ہو اس طرح خدا وند عالم نے ان کو جناب غفرانمآبؒ کی اتنی امداد کی توفیق عطا فرمائی کہ آپ تکمیل علم کے لئے عتبات عالیات کی طرف روانہ ہوئے ۔
تکمیل علم اور مراجعت
پہلے عراق پہنچے اور کربلائے معلیٰ میں صاحب ریاض آقا سید علی طبا طبائی اور آقا سید مہدی موسوی شہرستانی نیز خود ان بزرگوں کے استاد ،استاد اکبر آغا باقر بہبہانی سے اور نجف اشرف میں بحر العلوم آقا سید مہدی طبا طبائی سے فقہ اور اصول اور علم حدیث کی تکمیل کی ۔اس کے بعد ۱۱۹۴ ھ میں مشہد مقدس (ایران) کی طرف رخ کیا اور جناب سید محمد مہدی ابن سید ہدایت اللہ اصفہانی سے اکتساب علوم کیا اور بعد تکمیل ہندوستان مراجعت فرما ہوئے اور مرزا حسن رضا خاں کی خواہش سے لکھنؤ میں قیام فرمایا اور سلسلۂ تصنیف و تدریس و تبلیغ شروع کیا چند ہی سال کے اندر چند کتابیں تصنیف کرکے عراق بھیجیں اور مذکورہ بالا اساتذہ نے اجازات روانہ فرمائے ۔
ماحول اور دینی خدمات
اسوقت ہندوستان میں فرقۂ شیعہ کے افراد بڑے دور جہالت سے گذر رہے تھے اقلیت میں ہونے کے ساتھ کوئی علمی و دینی سر چشمہ قریب نہ ہونے کی وجہ سے دوسری جماعتوں کے رسوم کو اختیار کئے ہوئے تھے احمد کبیر کی گائے شیخ سدّو کا بکرا میران جی کے گلگلے اور بھوانی جی کی منتیں ایسے رسوم شیعوں میں رائج تھیں ۔ جناب غفرانمآب نے ایک طرف موعظہ و نصیحت سے داخلی اصلاح فرمائی اور ان سب رسوم کا قلع قمع کیا اور دوسری طرف دوسرے فرقوں کے علماء کا مقابلہ کیا اس وقت ایک محاذ شیعیت کے خلاف اہلسنت کا تھا اور دوسری طرف صحیح تعلیمات شریعت کے خلاف اخباریت کا تھا تیسرا بے مغز صوفیت کا جسکے نتیجہ میں پیری مریدی کا زور تھا اور احکام شرعیہ سے قطعی بے پروائی برتی جاتی تھی جناب غفرانمآب ؒ نے تن وتنہا ان تمام محاذوں پر مقابلہ کیا ۔
اہلسنت کے محاذ کی قوت اس سے ظاہر ہے کہ شاہ عبد العزیز دہلوی نے تحفۂ اثنا عشریہ اسی دور میں لکھی جس پر ڈیڑھ سو برس گذرنے کے بعد آج تک اہلسنت کی جانب سے مناظرہ کا دارو مدار ہے تحفہ کے مختلف ابواب کے جواب میں خود جناب غفرانمآبؒ نے قلم اٹھایا اور پانچ کتابیں پانچ بابوں کے جواب میں لکھیں صوارم الالٰہیات باب الٰہیات کے جواب میں حسام الاسلام باب نبوت کے جواب میں خاتمہ صوارم اثبات امامت میں احیاء السنۃ مبحث معادو رجعت اور ذوالفقار باب دوازدہم کی رد میں اس کے علاوہ رسالۂ غیبت بھی شاہ عبدالعزیز دہلوی ہی کی رد میں ہے نیز کچھ ابواب کا جواب اپنے تلامذہ سے لکھوایا جیسے جناب مفتی محمد قلی صاحب نیشا پوری کنتوری جنہوں نے دو بابوں کے جواب میں تَقْلِیْبَ الْمَکَائِدِاور تَشْئِیْدُ الْمَطَاعِنِ دوکتابیں لکھیں دوسرا محاذ یعنی اخباریت کا بھی بڑا زور تھا جس کے بڑے سر گروہ اکبر آباد(آگرہ)کے باشندے مرزا محمد بن عبد الصائغ نیشا پوری تھے جو عراق میں جاکر مقیم ہو گئے تھے اور آخر میں مجتہدین کے خلاف نا قابل برداشت سخت کلامیوں کے نتیجہ میں کسی نے جوش اشتعال میں آکر انہیں قتل کر دیا اور اسی طرح مرزا محمد مقتول مشہور ہوئے ان کے اثرات اس وقت ہندوستان میں بہت زیادہ تھے اخباریوں کی مایہ ناز کتاب اس وقت فاضل استر آبادی ملا محمد امین کی فوائد مدنیہ تھی چنانچہ جناب غفرانمآبؒ نے اسی کتاب پر قلم اٹھا یا اور اسا س الاصول اسکی رد میں لکھی ۔
یہ اخباریین پر بڑی شدید ضرب تھی چنانچہ مرزامحمداکبر آبادی نے اس کی رد معاول العقول کے نام سے لکھی جناب غفرانمآب ؒ نے اپنے بعض شاگردوں کی طرف سے اس کا جواب مطارق کے نام سے تحریر فرمایا اور آخر غفرانمآبؒ کے مساعی سے اخباریت کا چراغ ہندوستان سے ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا ۔
صوفیت کے مقابلہ میں جناب غفرانمآب ؒ نے شہاب ثاقب کتاب لکھی جس میں صوفیا کے اصلی خط و خال کو بالکل بے نقاب کر کے پیش کر دیا گیا ہے مواعظ اور تبلیغات کے ذریعہ اس میں جو حیرت انگیز کامیابی حاصل ہوئی ہے اسکا آنکھوں سے مشاہدہ ہورہا ہے کہ سوا سندھ اور پنجاب کے دور دراز مقامات کے جہاں آواز پوری طرح پہونچ نہ سکی تھی یوپی اور اسکے قریب کے تمام علاقوں میں شیعوں کے اندر پیری و مریدی کا نام و نشان تک نہیں ہے ان تینوں محاذوں پر مدافعانہ مجاہدات کے علاوہ شیعوں کی ذہنی مذہبی تربیت کے لئے ایک طرف مواعظ کا سلسلہ قائم فرمایا ۔ دوسری طرف عزائے امام حسین ؑ کی ترویج و اشاعت میں پورا انہماک صرف کیا ۔چنانچہ اس سلسلہ میں دو کتابیں بھی تحریر فرمائیں۔ایک کتاب اِثَارَۃُ الْاَحْزَانِ عَلیٰ الْقَتِیْلِ الْعَطْشَانِ اور دوسرے مُسْکِنُ الْقُلُوْبِ عِنْدَ فَقْدِ الْمَحْبُوْبِاور تعمیری شکل میں ایک عزاخانہ لکھنؤ میں تعمیرکرایاجو حسینیہ غفرانمآب ؒ کے نام سے دنیائے شیعت میں مشہور ہے اور دوسرا حسینیہ اپنے وطن نصیر آباد میں بنوایا جسکے آثار شکستہ اس وقت تک موجود ہیں اسکے علاوہ آصف الدولہ کا امامباڑہ بھی اسی دور کی یادگار ہے۔
ان تمام خدمات میں سے ہر ایک میں جتنا کام غفرانمآب ؒ نے بذات خود کیا ہے وہ کسی ایک شخص کی پوری زندگی کا کارنامہ بن سکتا تھا چہ جائیکہ ان تمام خدمات کو مجموعی حیثیت سے بوقت واحد انجام دینا یہ بغیر مخصوص تائید و توفیق الٰہی کے خیال میں نہیں آسکتا پھر مستقل علمی خدمات اور مختلف فنون میں تصانیف یہاں تک کہ فلسفہ میں شرح ہدایۃ الحکمۃ ملا صدر اکا حاشیہ اور منطق میں حمد اللہ کا حاشیہ یہ پوری زندگی کے کارنامے وہ ہیں جنکا مثل و نظیر غفرانمآبؒ کے بعد آپ کے اخلا ف و تلامذہ اور بعد کے طبقات میں بھی نہیں ملتا جب کہ اب حالات اطمینان بخش ہو چکے تھے اور ایک ماحول تیار ہو گیا تھا اور یوں کہنا چاہئے کہ ان تمام شعبوں میں بنیا دیں قائم ہو کر تھوڑی دیواریں بھی تعمیر ہو گئی تھیںصرف انہیں اونچا کرنا تھا پھر بھی غفرانمآبؒ کی سعی ہمہ گیر ی کسی شخصیت میں نظر نہیں آتی ۔
مذکورہ تمام امور کے علاوہ پھر طلاب کی تدریس و تربیت جسکا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں جہاں کہیں بھی علم ہے اس کی انتہا غفرانمآب طاب ثراہ تک ضرور ہوتی ہے جسکے تفصیلی تذکرہ کی اس مقام پر گنجائش نہیں ہے ۔
تصانیف:
جناب غفرانمآبؒ کے تصانیف پر اگر نظر ڈالی جائے تو وہ اتنی مقدار میں ہیں جس سے خیال ہو سکتا ہے کہ ان کا مشغلہ سوائے تصانیف کے کچھ تھا ہی نہیں ۔
ان کی فہرست درج ذیل ہے:
(۱) عماد الاسلام : جسکا اصلی نام مر آۃ العقول ہے یہ کتاب علم کلام میں اتنی بسیط و ضخیم ہے جسکے مثل دنیائے تشیع کیا پورے عالم اسلامی میں بھی موجود نہیں ہے شیعوں میں تو علم کلام کی کتابوں میں اسکے پہلے محقق طوسیؒ کی تجرید تھی جسے صرف ایک رسالہ سمجھنا چاہئے اور پھر علامہ حلیؒ کی شرح تجرید یہ بھی تین چار سو صفحات کی بس ایک جلد ہے اہلسنت میں علم کلام کی اہم کتابیں شرح مقاصد اور شرح مواقف ہیںان میں سے ہر ایک زیادہ سے زیادہ چھہ سات سو صفحات کی کتاب ہے لیکن سب سے پہلی اور آخری کتاب عماد الاسلام ہے جسکی پانچ جلدیں ہیں جن میں سے توحید بڑے سائز کے تقریباً چار سو صفحات کی عدل دوسوصفحات کی نبوت تین سو صفحات کی اور امامت تقریباً چھہ سو صفحات کی اور معاد پانچ سو صفحات کی ہے اس طرح مجموعاً تقریباً یہ بیس بائیس سو صفحات کی کتاب ہے جسکے مقابل نہ اسکے پہلے کوئی کتاب لکھی گئی تھی اور نہ اسکے بعد لکھی گئی ہے پھر یہ کسی ایسی کتاب کی جلدیں نہیں ہیں جس میں صرف منقولات ہوں اور مؤلف کا کام بس دوسری کتابوں کی عبارتوں کا نقل کرنا ہو بلکہ یہاں عقلی مباحث ہیں جن میں محنت ہی نہیں قابلیت بھی درکار ہے اور دماغ سوزی کی ضرورت ہے اگر غفرانمآب ؒ نے عمر بھر میں یہی ایک کتاب لکھی ہوتی تو انکے دیگر مشاغل کو دیکھتے ہوئے یہ خارق عادت امر تھا چہ جائیکہ ان کے مصنفات میں سے صرف ایک ہے اسکی تین جلدیں ہیں توحید،عدل اور نبوت مطبوعہ عماد الاسلام میں جو جناب قدوۃ العلماء طاب ثراہ نے قائم کیا تھا طبع ہوئیں مگر امامت اور معاد کی جلدیں اب تک منظر عام پر نہ آسکیں ۔
(۲) شہاب ثاقب:- یہ تقریباً چار سو صفحات کی کتاب صوفیا کی رد میں ہے جس میں انکے اقوال و اعمال پر شدید ناقدانہ نظر اور انکے کفریات و مزخرفات پر بہت تیز روشنی ڈالی گئی ہے افسوس ہے کہ یہ کتاب طبع نہیں ہوئی ۔
(۳)ذُوالْفِقَارِ- یہ شاہ عبد العزیز کی کتاب تحفہ ٔ اثنا عشریہ کے بارہویں باب کی رد ہے جو تقریباً تین سو صفحات کی ہے اور مطبع مجمع البحرین لدھیانہ میں جسے ارسطو جاہ رجب علی خاں اعلی اللہ مقامہ نے قائم کیا تھا طبع ہوئی ۔
(۴) صَوَارِمُ الْاِلٰہِیَّاتِ- یہ تحفۂ اثنا عشریہ کے باب الٰہیات کی رد میں ہے ۔
(۵) حُسَامُ الْاِسْلَامِ- یہ تحفہ کے باب نبوت کا جواب ہے
(۶)خاتمہ کتاب صوارم- یہ اثبات امامت میں ایک علٰحدہ رسالہ ہے ۔
(۷)اِحْیَائُ السُنَّۃِ- یہ تحفہ کے مبحث معاد و رجعت کی رد ہے۔
(۸) رسالۂ غیبت : – یہ بھی شاہ عبد العزیز دہلوی کے اقوال کی رد میں ہے اورشاہی مطبع لکھنؤ میں طبع ہوا تھا ۔
(۹) اساس الاصول – یہ اخباریین کی مایہ ناز کتاب فوائد مدنیہ مصنفہ محمد امین استرا آبادی کی رد میں ہے جو لکھنؤ کے شاہی مطبع میں طبع ہوئی تھی
(۱۰) مواعظ حسینیہ:- یہ لکھنؤ میں قیام جمعہ و جماعت کے بعد جو مواعظ ارشاد فرمائے گئے تھے انکا مجموعہ ہے ۔
(۱۱) شرح حدیقۃ المتقین – مصنفہ مولانا محمد تقی مجلسی ؒ کتاب الصوم یہ اصل کتاب بھی فارسی میں تھی اور اسکی شرح بھی فارسی میں ہے جو اس وقت کی عام فہم زبان سمجھی جاتی تھی۔
(۱۲) شرح حدیقۃ المتقین کتاب الزکوٰۃ
(۱۳) رسالہ دربارہ ٔ نماز جمعہ – یہ عراق سے واپسی اور لکھنؤ میں قیام کے ابتدائی دور میں غالباً اس وقت تحریر فرمایا تھا جب لکھنؤ میں نیا نیا نماز جمعہ و جماعت کا دور دورہ ہوا ہے اور ابھی عامہ ٔ مومنین کو پوری طور پر نماز جمعہ کی اہمیت کا احساس نہ تھا تواسوقت یہ رسالہ تحریر فرمایا گیا ۔
(۱۴) حاشیہ صدرا : – یہ فلسفہ کی مشہور کتاب شرح ہدایۃ الحکمۃ مصنفہ صدر المتالین شیرازی کا حاشیہ ہے جسکی مدح و ثنا جناب سید محمد مرتضیٰ صاحب فلسفی نونہروی نے معراج العقول میں اپنے استاد مولوی عبدالحی صاحب فرنگی محلی کی زبانی نقل کی ہے ۔
(۱۵)رسالہ مثنا ۃ با لتکریر – یہ بحث صدرا کی بہت مشہور ہے اس رسالہ میں اس کی تشریح کی گئی ہے۔
(۱۶) مُنْتَہیٰ الْاَفْکَارِ : – اصول فقہ میں معالم کو ایک منفرد مسلم حیثیت حاصل تھی سب سے پہلے صاحب قوانین نے معالم کے بہت سے نظریات سے اختلاف کیا اور کچھ جدید نظریات اختیار کئے جناب غفرانمآب ؒ اور صاحب قوانین ایک ہی استاد کے شاگرد تھے آپ نے قوانین کے مضامین کا علمی جائزہ لینے کے لئے کتاب تحریر فرمائی یہ کتاب انجمن یادگار علماء کی جانب سے جسے عم معظم علامہ ہندی اعلی اللہ مقامہ نے قائم فرمایا تھا تصویر عالم پریس لکھنؤ میںچھپ کر شایع ہوئی۔
(۱۷) اِثَارَۃُ الْاَحْزَانِ عَلَی الْقَتِیْلِ الْعَطْشَانِ: یہ کتاب عربی میںحالات سید الشہداء ؑمیں ہے جس میں کتب معتبرہ سے روایات واقعۂ کربلا کو درج فرمایا ہے۔
(۱۸) مُسَکِّنُ الْقُلُوْبِ عِنْدَ فَقْدِ الْمَحْبُوْبِ: آپ کے نہایت عزیز فرزند مولانا سید مہدی نے ۱۲۳۱ ھ میں رحلت فرمائی ان کے انتقال سے جناب غفرانمآب ؒ کو شدید صدمہ ہوا انہیں تاثرات میں یہ کتاب تحریر فرمائی جو شہید ؒثانی کی کتاب مُسَکِّنُ الْفُوَادْ عِنْدَ فَقْدِ الْاَحْیَۃِ وَ الْاَوْلَادِکے رنگ میں ہے اس میں حالات حضرت سید الشہداء ؑ بھی خاص انداز میں درج کئے ہیں۔
(۱۹)اجازۂ جناب سلطان العلماء طاب ثراہ :یہ وہ اجازہ ہے جو آپ نے فرزند اکبر کے لئے تحریرفرمایا تھا اس میں روایت و درایت کے بہت سے مباحث کے علاوہ اپنے اساتذہ کے مختصر حالات بھی تحریر فرمائے ہیں نیز آخر میں بڑے بیش قیمت وصایا ہیں ۔
(۲۰)رسالہ در جواب سوالا ت محمد سمیع صوفی
(۲۱)رسالۂ ارضیین عربی: اس میں مختلف طرح کی زمینوں کے شرعی احکام استدلالی طور پر تحریر فرمائے ہیں۔
(۲۲)رسالۂ ذہبیہ :سونے اور چاندی کے برتنوں کے احکام میں ۔
(۲۳)رسالہ رد نصاریٰ
(۲۴)مطارق :یہ اساس الاصول کے جواب میں مرزا محمداکبر آبادی مقتول کی کتاب معاد ل العقول کا جواب ہے جو بعض تلامذہ کے نام سے لکھا گیا تھا۔
(۲۵)رسالہ در ادعیہ کفن
تلامذہ : تصانیف کے اس عظیم الشان ذخیرہ کے بعد جناب غفرانمآب ؒ کے شاگردوں کی فہرست اور ان شاگردوں کے مقامات عالیہ اور علمی جلالت پر نظر پڑتی ہے تو پھر سوا حیرت کے کوئی چارۂ کار نہیں رہتا۔
یہ شاگرد بھی ایسے ہیں کہ ان میں بس صرف کوئی ایک فرد ہوتی تو وہ اپنے استاد کا کارنامہ قرار پا سکتی تھی چہ جائیکہ اتنی باکمال فردیں بوقتِ واحد کسی استاد کے شاہکاروں میںداخل ہوں ۔
پھر وہ موجود ہ زمانہ نہیں تھا کہ کسی بڑے استاد کے منتہی شاگرد ابتدائی تعلیم کسی اسکول میں حاصل کئے ہوتے ہیں ۔ پھر کسی کالج میں داخل ہوکر مختلف درجوں کی تعلیم الگ الگ استادوں سے حاصل کرتے ہیں معانی،بیان میں کسی سے اور منطق میں کسی سے اور ادب میں کسی سے استفادہ کرتے اور پھر آخر میں جاکر دو ایک سال اس بڑے استاد سے پڑھ لیتے ہیں اور پھر شرف و امتیاز کی خاطر اسی بڑے استاد کے شاگرد کی حیثیت سے دنیامیں اپنا تعارف کراتے ہیں خصوصاً ہمارے مدارس کے فارغ التحصیل اور سند یافتہ حضرات اپنی استعداد علمی مختلف مدرسین و علماء کے گھر وں پر جاجا کر ان سے پڑھ کر درست کرتے ہیں مگر چونکہ سند یافتہ وہ اس مدرسہ کے ہوتے ہیں لہٰذا وہ محسوب ہوتے ہیں ۔ اس مدرسہ کے پرنسپل صاحب قبلہ کے تلامذہ میں اس دور میں جب جناب غفرانمآبؒ لکھنؤ میں تشریف لائے ہیں علمی مدارس نہیں تھے۔دینی کالج نہیں تھے بہت سے اساتذہ و علماء نہیں تھے اس کے معنی یہ ہیں کہ جناب غفرانمآب ؒ اپنے بیٹوں اور شاگردوں کے لئے ایک اکیلے پورا مدرسہ تھے ۔پھر جب ان صاحبزادوں اور شاگردوں کی مختلف فنون میں خصوصی مہارت کو دیکھا جاتاہے جو موجودہ دور کے اکسپرٹ والے نظام کے مطابق ہے یعنی ایک طرف جناب سلطان العلماء بڑے قبلہ و کعبہ اور مفتی محمد قُلی صاحب ہیں جو علم کلام کے ماہر ِ خصوصی ہیں ۔ایک جانب سبحان علی خاں مصنف وجیزہ ہیں جو مناظرہ میں دستگاہ خاص کے مالک ہیں ایک سمت جناب سید العلماء علییٖن مکاں اور علامۃ العلماء سیداحمد علی صاحب محمد آبادی ہیں جو فقہ و اصول کے یگانۂ روزگار ہیں اور ایک رُخ پر میر علی بخش صاحب کنتوری ہیں جو ادب میں فردِ فرید ہیں ۔پھر ایک طرف مولاناسید علی صاحب اور مولوی یاد علی نصیر آبادی مفسر قرآن ہیں ۔
اور ایک جانب سید نظام الدین حسین صاحب ہیئت و ریاضی اور معقولات کے استاد کامل ہیں اور مرزا زین الدین احمد خاں ادب اور عروض و قوافی کے ممتاز ماہر ہیں تو یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتاہے کہ غفرانمآبؒ بذات خود ایک مدرسہ نہیں بلکہ عربی زبان اور دینی علوم کی ایک پوری یونیورسٹی تھے جس کا ہر شاگرد پھر خود اپنے شعبہ میں تعلیم کا ایک مدرسہ اور تصنیف کا ایک ادارہ بن گیا ۔
ذیل میں ان کے شاگر دوں کے نام مختصر تعارف کے ساتھ درج کئے جاتے ہیں ۔
(۱)سلطان العلماء مولانا سید محمد رضواں مآبؒ جناب غفرانمآبؒ کے بڑے صاحبزادے آپ اپنے والد بزرگوار کی علمی تربیت کا نمایاں مرقع تھے اور جناب غفرانمآبؒ کے بعد وہ ریاستِ علمیہ کے سچے معنی میں تاجدار ہوئے ۔ (۲)مولانا سید علی صاحب غفرانمآبؒ کے دوسرے بیٹے تھے سب سے پہلے اردو زبان میں مذہبی علوم کے منتقل کرنے کا آپ کو خیال پیدا ہوا اور مکمل تفسیر قرآن دو جلدوں میں تحریر فرمائی یہ اردو زبان میں دُنیائے شیعیت کی سب سے پہلی تفسیر ہے ۔(۳)مولانا سید حسن جناب غفرانمآبؒ کے تیسرے بیٹے اردو زبان میں علمِ کلام کی سب سے پہلی کتاب باقیات الصالحات کے مصنف (۴)چوتھے بیٹے مولانا سید مہدی عنفو ان شباب میں باپ کی زندگی میں انتقال کیا۔ معقول و منقول میں بلند پایہ رکھتے تھے۔(۵)جناب سید العلماء سید حسین علیین مکاں اپنے وقت کے اعلم دُنیا تھے (۶)محقق کاظم مرزا کامل علی صاحب جناب غفرانمآبؒ کے قدمائے تلامذہ میں سے تھے ۔مولانا احمد علی صاحب محمد آبادی نے اپنی کتا ب سفر السعادۃ میں اپنے حالات میں ان کا ذکر کیا ہے اور یہ کہ طالب علمی میں جب وہ لکھنؤ آئے تو پہلے غفرانمآبؒ کے شاگر دِ رشید مرزا کاظم علی صاحب سے ملے اور کچھ عرصہ تک ان سے تعلیم حاصل کی پھر انہیں کے ذریعہ سے جناب غفرانمآبؒ تک پہونچے اور ان کے شاگر د ہوئے۔ (۷)مرزا محمد خلیل جناب غفرانمآبؒ کے بڑے عزیز شاگر د تھے ان کے انتقال پر اپنے تأ ثرات کا اظہار غفرانمآبؒ نے عماد الاسلام کے دیباچہ میں کیاہے (۸)علامۃ العلماء حاج سید احمد علی محمد آ بادی معقولات ومنقولات میں بہت بلند پایہ تھے عربی اشعار بھی نظم فرماتے تھے جو جناب مفتی میر محمد عباس صاحب کی ظل ممدودمیں درج ہیں۔نیز عربی نثر بھی ادبی رنگ میں تحریر فرماتے تھے ۔ آپ نے اپنا سفر نامہ حج و زیارات ــ’’سفر ا لسعادۃ‘‘کے نام سے لکھا ہے جس میںاپنے اورنیز اپنے استاد جناب غفراںمآبؒ اور استاد زادوں کے مختصر حالا ت بھی درج فرمائے ہیں۔یہ جناب مولوی علی میاں صاحب کامل کے والد بزرگوار تھے (۹)مفتی محمد قلی صاحب موسوی نیشاپوری کنتوری، جناب مولانا حامد حسین صاحب مصنف عبقات ا لانوار کے والد بزرگواراور جناب ناصرا لملۃ کے جد امجد تھے ۔ علم کلام میں خاص پایہ رکھتے تھے ۔ تحفہ کے متعدد ابواب کی رد میں ’’تَشْئِیْدُ الْمَطَاعِنِ‘‘ ’’تَقْلِیْبُ الْمَکَائِدِ‘‘ اور ’’ سیف ناصری ‘‘ وغیرہ آپ کی کتابیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔(۱۰) سبحان علی خاں صاحب آپ الٰہ آباد کے کمبوہ خا ندان کے مورث اعلیٰ تھے ۔ حکومت اودھ میں وزیر کے درجہ پر بھی تھے ۔فن کلام ومناظرہ کی تکمیل جناب غفراں مآب صاحب سے کی تھی آپ کی کتاب ’’وجیزہ ‘‘رد اہلسنت میں بہت بلند پایہ ہے (۱۱) مرزا فخر ا لدین احمد خا ںمعروف بمرزا جعفر صاحب (۱۲)مولوی سید یاد علی صاحب نقوی نصیر آبادی آ پ نے فارسی زبان میں تفسیر تحریر فرمائی جو ہندوستان میں شیعوں کی پہلی فارسی تفسیر ہے (۱۳) میر مرتضیٰ صاحب مصنف رسالۂ ’’اسرار ا لصلاۃ‘‘(۱۴) سید غلا م حسین صاحب(۱۵) سید محمد باقر صاحب واعظ ۔(۱۶) سید شاکر علی صاحب (۱۷)سید علی صا حب (۱۸) حاجی سید نظام الدین حسین صاحب ( ۱۹)مرزا جوادعلی صاحب (۲۰)حکیم مرزا علی شریف صاحب محشی کتب کلامیہ و طبیہ و مصنف رسالۂ طبیہ(۲۱)سید مرتضیٰ صاحب (۲۲)مرزا محمد رفیع عرف مرزا مُغل صاحب غافل(۲۳)مولوی سید بہائوالدین صاحب (۲۴)مولوی سید اصغر ابن سید بہائوالدین صاحب (۲۵)حکیم مرزا علی صاحب (۲۶)سید حمایت حسین عرف میر علی بخش صاحب کنتوری عربی ادب اور شاعری میں یکتائے زمانہ تھے آپ نے اساس الاصول کا اردو ترجمہ کرکے ہماری زبان میں اصول فقہ کا بھی ایک ذخیرہ فراہم کیا (۲۷)مرزا اسماعیل صاحب جو زیارات سے مشر ف ہونے کے بعد سے تبلیغ دین کے لئے حیدر آباد تشریف لے گئے (۲۸)مرزا محمد علی صاحب سفر زیارت کے بعد مکۂ معظمہ گئے پھر واپس نہیں آئے (۲۹)سید سجاد علی صاحب جائسی آپ نے عماد الاسلام کے مقدمات کا اردو میں ترجمہ کیا (۳۰)مرزا زین الدین احمد خاںعرف مرزا محسن صاحب آپ ادب اور عروض و قوافی کے فن میں کامل تھے(۳۱)مولوی سید اعظم علی صاحب (۳۲)ملا علی نقی قزوینی (۳۳)مولوی سید علی نقی ابن سید بہائو الدین صاحب (۳۴)مولوی سید بنیاد علی صاحب (۳۵)میر خدا بخش صاحب مختار آفرین علی خاں (۳۶)مولوی مُنوعلی خاں جو سُنی سے شیعہ ہوئے تھے (۳۷)سید امان علی صاحب(۳۸) مولانا سید عبد العلی دیو کھٹوی جو فیض آباد کے خاندان پیش نماز کے مورث اعلیٰ ہیں(۳۹)مولانا سید محمد صاحب ابن سید عبد العلی صاحب مذکور (۴۰)مولوی سید کلب علی صاحب ابن عبد العلی صاحب مذکور(۴۱)مولوی سید اشرف علی صاحب بلگرامی۔ غالباً عربی کتاب رَوْضُ الْجِنَانِ فِیْ مُشْتَھَی الْجِنَانِ آپ ہی کی تصنیف ہے۔
مبلغین کا تقرر
آپ نے مختلف اطراف میں ہدایت وتعلیم دین کے لئے مبلغین کے تقرر کی ابتدابھی فرمادی تھی۔چنانچہ مولانا عبدالعلی صاحب اور ان کے صاحبزادے فیض آباد تشریف لے گئے مرزا اسماعیل صاحب حیدر آباددکن گئے۔امروہہ سے محلہ گزری کے مولوی سید محمد عبادت صاحب نے لکھنؤ جا کر جناب غفرانمآبؒ سے امامت جماعت کا اجازہ حاصل کیا اور مسائل شرعیہ کی تعلیم کے لئے جناب غفرانمآبؒ نے شیخ حرّ عالمی کی کتاب بدایۃ الہدایہ مرحمت فرمائی کہ اختلافی مسائل میں احتیاطی احکام کی مومنین کو تلقین فرمائیں سبحان علی خاں صاحب مرحوم کے خاندان سے الٰہ آباد میں خدمات دینیہ کی بنیاد قائم ہوئی۔
وفات
لکھنؤ میں پینتیس برس کامل اس جہاد زندگی میں مصروف رہ کر تقریباً ستر برس کی عمر میں ۱۹؍رجب 1235 ہجری کو رحلت فرمائی اور اپنے بنا کردہ امام باڑے کی صحنچی میں دفن ہوئے۔
مولاناسید احمد علی صاحب محمد آبادی نے تاریخ نظم فرمائی جودرج ذیل ہے:
فقیہ و مجتہد وعالم و مروّج دیں
شریف مکّۂ علم و کمال وفضل و تقا
ضیاء دیدۂ دروازہ مدینۂ علم
عزیز مصر سیادت،سپہر مجد و عُلا
نہ دید چشم فلک مثل آں مجدّد دیں
کہ شاہد اند بفضل و بزرگیش اعدا
جمال در خور علم وکمال داشت از اں
کہ بد ز روز ازل مہیطِ فیوض خدا
بآبیاری ارشاد آں سحاب فیوض
دمید در گل ناچیز ہند یش گُلہا
رسید چوں شب تاسع عشر ز ماِہ رجب
سفربہ روضۂ رضواں نمود از دنیا
دریں مصیبت جاں کا ہ شیعیاں یکسر
بہ سوز سینہ نمود ند ماتمش برپا
چوایں مصیبتِ عظمیٰ در اہل دیں روداد
بدل گزشت کہ تاریخ آں کنم نشاں
سروش غیب ہماں وقت ناگہاں فرمود
ستون دین بزمیں اوفتاد واویلا