امریکہ نے میانمارکی تجارت پرپابندی عائد کر2 کمپنیوں کو کیا بلیک لسٹ، یوٹیوب نے پانچ فوجی چینلز کو کیا بند
458
M.U.H
07/03/2021
میانمار کے فوجی بغاوت کے خلاف دنیابھر میں احتجاج بڑھتا ہی جارہا ہے۔ میانمار کے سیاسی بحران سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس سے قبل جہاں امریکہ نے میانمار کی تجارت پر پابندی عائد کر دو کمپنیوں کو بلیک لسٹ کردیا ہے ، وہیں یوٹیوب نے میانمار کے پانچ فوجی چینلز کو بند کردیا ہے۔ میانمار کی فوجی حکومت پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ، امریکہ نے میانمار اقتصادی کارپوریشن اور میانمار اکنامک ہولڈنگ پبلک کمپنی کو تجارت کے لئے بلیک لسٹ کردیا۔
امریکی محکمہ تجارت نے اس کے علاوہ میانمار کی وزارت دفاع ، وزارت داخلہ کو بھی اس میں شامل کیا ہے۔ امریکہ نے یہ فیصلہ وہاں جمہوری اقتدار کی بحالی کا مطالبہ کرنے والوں کے سختی دکھانے ، گولی چلانے کے واقعے کے بعد 38 افراد کی ہلاکت کے بعد لیا ہے ۔امریکہ کی جانب سے جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں ، ان میں بیورو آف انڈسٹری اینڈ سکیورٹی (بی آئی ایس) نے میانمار کی فوجی اور سکیورٹی سروس کو وہاں پر فوجی تختہ پلٹ میں شراکت دار مانا ہے ۔ امریکہ نے اپنے حالیہ فیصلے میں میانمار سے ہونے والی برآمدات اور درآمد ات پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ امریکہ نے ایک بار پھر فوجی بغاوت کی کارروائی کو غلط قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اسے جمہوریہ کا احترام کرتے ہوئے میانمار کی منتخب شدہ سوچی کی حکومت کو بحال کرنا چاہئے۔
دوسری طرف ، یوٹیوب نے کہا ہے کہ وہ دوسرے مواد کی بھی تفتیش کر رہا ہے جو اس کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس سے قبل فیس بک نے اعلان کیا تھا کہ اس نے میانمار کی فوج سے متعلق تمام پیجز کو اپنی سائٹ اور انسٹاگرام سے بھی ہٹا دیا ہے۔ اب یوٹیوب نے بھی ایسا ہی فیصلہ لیا ہے۔ غور طلب ہے کہ میانمار میں فوج نے یکم فروری کو بغاوت کے ذریعے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی ۔ فوج کا کہنا ہے کہ آنگ سان سوچی کی منتخب سویلین حکومت کو ہٹانے کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ وسیع پیمانے پر انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات کی صحیح تحقیقات کرنے میں ناکام رہی ہے۔
بتادیں کہ امریکہ سمیت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گٹریس نے بدھ کے واقعہ کو ایک خونی دن کے طور پر خطاب کیا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی خصوصی ایلچی کرسٹینا برگنر نے بھی اسے ایک خونی دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔ کرسٹینا نے میانمار میں بغاوت کے بعد میانمار کے نائب فوجی سربراہ سے بھی بات کی۔ اگرچہ انہیں اپنی بات کا صحیح جواب نہیں ملا۔